زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے

Published on May 30, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 839)      No Comments

تحریر: جاوید مہر
زندگی میں بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں جب ہماری ہمت ہمارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور ہم اداسی، ناامیدی اور مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایسے میں فیصلے کی طاقت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں ہمارے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اور ہم ہی کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کب اور کون سا راستہ اخیتار کرنا ہے؟
وہ 4 دسمبر 1982 کو آسٹریلیا میں پیدا ہوا۔ اس کی پیداٸش نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کی والدہ کو اتنی مایوسی ہوٸی کہ اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور اپنے شوہر سے کہا کہ اسے مجھ سے دور لے جاٶ۔ میں اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔ پیدا ہونے والا یہ بچہ بغیر بازٶوں اور ٹانگوں کے تھا۔کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ اس بچے کی کوٸی اہمیت ہے۔صرف اس کا والد تھا جس نے اس کی ماں کو دلاسہ دیا اور کہا کہ دیکھو یہ بہت خوبصورت ہے۔ پھر بھی اس کی والدہ کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں 3 سے 4 ماہ لگ گۓ۔
یہ صورتحال اس بچے کے لیے بھی انہونی سے کم نہ تھی۔ ایسی حالت میں پلنا، بڑھنا اور پڑھنا جوۓ شِیر لانے کے مترادف تھا۔ اسے ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ہمت کرنا تھی۔ سکول میں ہمیشہ دوسرے بچے اس کا مذاق اڑاتے اور اس کی اس غیر معمولی جسامت پر آوازیں کستے۔ وہ بہت مایوس ہوتا۔ والدین اس کی ہمت بندھاتے اور کہتے کہ ایسے رویّوں کو نظر انداز کرو لیکن اس کا کہنا تھا کہ اسے خصوصی افراد میں شمار کیا جانا اذیت سے دوچار کرتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح پاٶں اور بازٶوں کی خواہش کرتا مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ 10 سال کی عمر میں اس نے خودکشی کی کوشش کی کیونکہ وہ سمجھنے لگا کہ اس کی کوٸی اہمیت نہیں ہے۔ اس کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے۔ وہ سوچتا کہ اس طرح ساری عمر ماں باپ پر بوجھ بنا رہوں گا۔ اس کی شادی بھی نہیں ہو سکے گی اور ساری زندگی محتاجگی میں گزرے گی۔ لیکن اس کے والدین نے اس کی ہمت بندھاٸی اور سمجھایا کہ تم بہت کچھ اور حاصل کر سکتے ہو اگر تم کوشش کرو۔
اس نے والدین کی نصیحت کو دل سے لگایا اور زندگی کو نٸے زاویے سے شروع کیا۔
اس نے اپنے چھوٹے سی پاٶں سے چلنا اور قلم باندھ کر لکھنا سیکھا۔ اس نے تیراکی، مچھلی پکڑنا، گولف کھیلنا، سرفنگ کرنا، سنو بورڈ کا استعمال، میوزک، پینٹنگ اور پیراشوٹ سے جمپ لگانا سیکھا۔ وہ سب جو صرف نارمل لوگ ہی کر سکتے ہیں اس نے یہ کر کے دکھا دیا۔
پھر اسکی ایک ایسے ہی بچے سے ملاقات ہوٸی جو اسی کی طرح کا تھا تو اسے یہ احساس ہوا کہ مجھے ایسے لوگوں کی مدد کرنا ہوگی اور ان میں نیا یقین اور زندگی کی امنگ پیدا کرنا ہو گی۔ اس نے 19 سال کی عمر میں موٹیویشنل لیکچرز دینے شروع کر دیے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پاٶں اور بازٶوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ 30 سال کی عمر میں اسکی شادی بھی ہوگٸ اور آج اس کے چار بچے ہیں۔ وہ 57 سے زیادہ ممالک گھوم چکا ہے اور کٸی کتابیں بھی تحریر کر چکا ہے۔ اس کی ایک کتاب “لاٸف وِدآٶٹ لِمٹس” جو 2010 میں شاٸع ہوٸی تھی آج 30 سے زیادہ زبانوں میں تراجم کے ساتھ موجود ہے۔
آج کی دنیا اس موٹیویشنل سپیکر کو نِک واۓ چچ (نِک ویو جیسیک) کے نام سے جانتی ہے۔ آپ اس نام کو گوگل کریں یا یوٹیوب پر جاٸیں تو آپ اس کی تحریروں اور وڈیوز کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس خدا سے ناراض ہونے کی وجہ تھی اس پر جس سے محروم رکھا گیا لیکن وہ شکرگزار ہے کیونکہ بدلے میں اور بہت کچھ سے نواز دیا گیا۔ آج وہ دنیا میں محبت اور یقین کا پیغام دے کر لاکھوں خصوصی افراد اور مایوس نوجوانوں کی زندگی میں امید کے دِیے جلا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر وہ معذوری جو خدا نے دی ہے اس کے بدلےمیں خدا نے بہت سی قابلیتوں کا اہتمام بھی کر دیا ہوا ہے بس تم نے ان قابلیتوں کو کھوجنا ہے تا کہ تم زندگی میں درپیش چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کر سکو۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اگر تمہیں کوٸی معجزہ نہیں دکھاٸی دیتا تو خود معجزہ بن جاٶ۔ اس نے 2005 میں ” لاٸف وِدآٶٹ لِمبز” اور 2007 میں “آلٹیچیوڈ از ایٹیچیوڈ” کے نام سے ادارے بھی بناۓ جو ایسے ہی مایوسی میں گِھرے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ سی این این اور بی بی سی جیسے بڑے پلیٹ فارمز پر انٹرویو دے چکا ہے اور سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں کا سٹار ہے۔
زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے لہذٰا وقت کے مطابق اپنے آپکو ڈھالنا ضروری ہوتا ہے۔ یاد رکھیے یہ زندگی جینے کے قابل ضرور ہے۔ ہمیشہ مثبت سوچ بناۓ رکھیے اور اپنے خوابوں کی بلند پروازی کا خیال بھی رکھیں کیونکہ منزل کے حصول کے لیے خوابوں کا ہونا اور پھر ان کا زندہ ہونا بہت اہم ہے کیونکہ جس کی زندگی میں خواب نہیں اس کی کوٸی منزل نہیں۔ کوشش ضرور کرتے رہیں کیونکہ قرآن پاک میں اللہ ربّ العزّت کا فرمان ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ آپ کے اندر کوٸی بھی معذوری ہے تو ٹھہریے اور آنکھیں بند کر کے سوچیے کہ اور کیا کچھ ہے جو اس خداۓ بزرگ و برتر نے آپ کو دیا ہوا ہے۔ یقینِ محکم کے ساتھ آپ کو جواب بھی مل جاۓ گا اور راستہ بھی۔ بقول علامہ محمد اقبال
کوٸی قابل ہو تو ہم شانِ کٸ دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نٸ دیتے ہیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog