اجر تنظیمیں،عوام اور حکومت

Published on June 4, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 147)      No Comments
 
مہرسلطان محمود
تاجر تنظیمیں تاجروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتری کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں نہ کہ کسی کے ذاتی مفادات کے لیے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ تاجر تنظیمیں صرف اورصرف تاجروں کے ہی مفادات کاتحفظ کرتی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔تاجر تنظیمیں حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ حکومتی قواعد وضوابط کو اپناتے ہوئے تاجروں کے جائز مطالبات و شکایات کے ازالہ کے لیے ہوتی ہیں۔تاجرتنظیموں کا کام جہاں تاجروں کے جائز حقوق کاتحفظ کرناہوتاہے وہیں حکومتی طے کردہ گائیڈ لائنز کو بھی مدنظر رکھ کر چلنا ہوتاہے۔اصلی اور حقیقی تاجر تنظیموں میں یہ فرق ہوتاہے کہ وہ ایک طے شدہ اصول،طور طریقے کے مطابق اپنا کام کرتی ہیں نہ کہ ذاتی خواہشات کے مطابق۔ تاجرتنظیموں نے جہاں تاجروں کے تحفظات وخدشات کو لیکر چلنا ہوتاہے وہیں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنابھی مجبوری ہوتی ہے۔سمجھدار تاجر سمجھتاہے کہ تاجر تنظیمیں موجودہ کرونا وباء میں ایک دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ان کے حقوق کا صحیح تحفظ کررہی ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ تاجر تنظیمیں انتہائی بے کار،نکمی اور سیاستدانوں کی لے پالک ہیں جو تاجروں کا تحفظ کم اورانتظامیہ کی کاسہ لیسی زیادہ کررہی ہیں۔یہی اصل ناکامی وخرابی ہے۔عوام سمجھتے ہیں یہ تاجر تنظیمیں محض صرف اپنے مفادات کی اسیرہیں انہیں عوامی مسائل اور تاجروں کی تکالیف و مشکلات کابالکل بھی احساس و درد نہیں ہے۔ان کا مقصد کچھ اور ہے جبکہ لولی پاپ کچھ اور دیا جاتاہے۔یہ تنظیمیں اپنے جیسے بڑے مگرمچھوں اور بااثر مچھلیوں کا تحفظ یقینی بناتی ہیں جبکہ چھوٹے تاجروں اور مجبورومقہور ریڑھی بانوں کو قربان کرکے انتظامیہ کی بھی واہ واہ کروادیتے ہیں۔بڑوں کو نوازنا اور چھوٹوں سے چھیننا،یہ وہ رویہ ہے جو تاجروں اور لوگوں میں دوریاں بڑھا رہاہے اور تاجر تنظیموں کی ”بہترین“ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ تاجر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان تاجر تنظیموں نے ہماری حقیقی فلاح کے لیے کوئی کام نہیں کرنا اور ہماری مشکلات میں ہمارا ساتھ نہیں دینا تو یہ تنظیمیں ہمارے کسی کام کی نہیں ہیں۔کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے تو بہتر ہے کہ تاجر تنظیمیں بنائی ہی نہ جائیں۔چونکہ دیکھنے میں یہی آیاہے کہ مختلف ذیلی تنظیمیں انجمن شوز مرچنٹ،انجمن منیاری مرچنٹ،کریانہ مر چنٹ و دیگر صرف اور صرف اپنی ہی پراڈکٹ کی مشہوری کے لئے ہیں نہ کہ تاجروں کے جائز مطالبات کے تحفظ کے لیے۔اکثرتاجروں کا کہنا ہے کہ ان انجمنوں کے نام و نہاد لیڈرز ہمارے حقوق کے تحفظ کے نام پر انتظامیہ کے ساتھ ملکر محض ٹوپی ڈرامہ کرتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں ہر جگہ تاجروں کو تاجرتنظیموں سے یہی گلے شکوے ہیں۔جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آج کا تاجر بے ایمان ہے۔ ناجائز منافع خوری کرتاہے۔لوگوں سے اس کا رویہ خریدتے وقت کچھ اور ہوتاہے اور بیچتے وقت کچھ اور ہوتاہے۔خود ساختہ مہنگائی کرکے ناقص کوالٹی کے بھی منہ مانگے دام بٹورتاہے اور ذمہ دارحکمران جماعت کو ٹھہراتاہے۔ایک ریڑھی والے سے لیکر ایک دکاندار تک عمران حکومت کو گالی نکال، اپنی چیز مہنگی بیچ کر مکاربنے، اپنی اس ادائے فریبانہ پر پھولے نہیں سماتاہے۔وہ سمجھتاہے کہ میں نے اپنی کمال ہوشیاری سے اس گاہک سے ناجائز منافع خوری کرکے،اس کی جیب پرناحق ڈاکا ڈال کر،عمران کو گالی نکال کر”اپنیاں ستیاں خیراں“ کمال کردیا۔بازاروں میں موجود لگے سٹالوں پر بھی 20/40 % آف کے لگے سیل سیل اور سیل کے آویزاں بینر زبان حال سے خود ہی بتارہے ہوتے ہیں کہ آو ہم لوٹ رہے ہیں ہمارا ساتھ دو۔وہ وہ چیزیں بیچ دیتے ہیں جو دو کوڑی کی نہیں ہوتی ہیں۔کپڑوں،جوتوں،کاسمیٹکس،گارمنٹس،مہندی اور بناؤ سنگار کے نام پر وہ وہ لوٹ مار ہورہی ہے کہ خدا پناہ۔چالیس پچاس پرسنٹ تک ناجائز منافع کمایا جارہاہے اور پھر بھی مرے جاررہے ہیں۔عوام کو منہ مانگے ریٹ پر چیزیں بیچ کربھی،بھاری منافع کماکربھی یہ تاجرلوگ خوش نہیں ہیں۔کپڑوں،جوتوں،کاسمیٹکس،گارمنٹس،مہندی اوربناؤ سنگار پراڈکٹس پر آج تک کسی سرکار نے چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھاہے۔ان کی کوالٹی اور قیمتوں کا تعین کرنے کا کوئی پیمانہ ہی طے نہیں کیاگیاہے۔ہر معاملے میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔گھٹیااور ناقص کوالٹی کی چیزوں کی مارکیٹ میں بہتات ہے جو بڑے دھڑلے سے اعلیٰ قیمت پر بیچی جارہی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔کاروبار میں موجودیہی مادر پدر آزادی ہی پورے معاشی سسٹم میں اصل کھلواڑ کی وجہ ہے جس کا فائدہ اٹھاکر تاجر لوٹ مارکرکے مزے میں بھی ہے اور گنہگار بھی حکومت وقت کو ٹھہرارہاہے۔یہ ہماری معاشرتی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔اس ساری لوٹ مار کو دوام بخشنے کے لیے تاجر تنظیموں کے ساتھ انتظامیہ بھی اوپر سے اترا ”من سلوی“ اپنے منہ میں انڈیل کر اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھررہے ہیں۔کھسیانی تاجرتنظیمیں اس ساری لوٹ مار کا حصہ ہیں۔ ریٹ کے معاملے میں مہنگائی کا اراگ اُلاپتے ہوئے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ماہر ہیں۔اس کے علاوہ یہ تاجر حضرات ٹیکس چوری بھی بہت دھڑلے سے کررہے ہیں اور ناانصافی کا شور بھی مسلسل مچائے ہوئے ہیں۔ایف بی آر کی جانب سے منی ٹریل مانگنے پر احتجاج پر اترآتے ہیں۔ٹیکس چوری میں تاجروں کے ساتھ سرکاری افسران بھی ملوث ہیں جو ان کو اپناحصہ وصولی کے بعد ٹیکس چوری کے گر بتاتے ہیں۔آخر پر نقصان حکومتوں کا نہیں ملک وقوم کا ہوتاہے۔ان کا کچھ جاتا نہیں اور دوسروں کا کچھ رہتا نہیں ہے۔آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے حکومت کواس پر منصفانہ قانون سازی ہنگامی بنیادوں پر کرنی ہوگی۔یہ ناگزیر ہوچکاہے۔
Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Premium WordPress Themes