توکل

Published on August 17, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 251)      No Comments


تحریر۔۔۔عطیہ ربانی
توکل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی کام یا کسی معاملہ کو کسی کے سپرد کرنا، یو یہ کہ کسی پر مکمل اعتماد کیا جائے- جیسے کہ عربی میں الوکیل اسے کہتے ہیں جو دوسروں کے کام کی نگرانی کرے
زندگی میں بہت بار ایسے معاملات درپیش ہوتے ہیں جب انسان خود اپنا دفاع نہیں کر پاتا، اپنے اوپر بھروسہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا اپنی صلاحیت پر پوری طرح بھروسہ نہ کر پارہا ہو تو اسے کسی دوسرے کی ضرورت پیش آتی ہے جو اس کا مکمل طور پر دفاع کر سکے، معاملات کو بخوبی سنبھال سکے- ایسا شخص جس کی قابلیت اور صلاحیت پر بھروسہ ہو – اسے اپنا وکیل مقرر کیا جاتا ہے-
یہی معاملہ بندے کا خدا کے ساتھ ہے- خدا پر توکل یہی ہے کہ انسان اپنے معاملات، اپنی مشکلات، زندگی کی پیچیدگیوں اور مسائل کو حل کرنے کی ہمت و طاقت نہ رکھتا ہو اور وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تبارک تعالٰی پر توکل کرے یعنی اپنا وکیل قرار دے – بہت سے ایسے کام جو خود کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو لیکن کوشش میں لگا رہے اور یہ یقین رکھے کہ اس کی وکیل خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو ہر طرح سے بھروسے کے لائق ہے-
اللہ تعالیٰ پر توکل انبیاءکرام نہ صرف انبیاءکرام کا شعار رہا ہے بلکہ یہ حکم باری تعالٰی بھی ہے – قرآن کریم میں بار بار توکل پر زور دیا گیا ہے؛
بے شک اللہ توکل رکھنے والوں کو پسند فرماتا ہے
امام غزالی کے نزدیک توکل یہ ہے کہ پورے دل سے اس ذات پر بھروسہ ہو جو حقیقی مالک و کارساز ہے-
ایک جگہ اور قرآن پاک میں فرمایا گیا؛
اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
جو اللہ باری تعالیٰ پر پورے یقین کے ساتھ بھروسہ رکھتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ؛اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بے شک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے (کنزالایمان)“۔
توکل یہ بھی ہے کہ انسان مکمل طور پر خود کو کارساز حقیقی کے سپرد کر دے اور اپنے نفس کو مکمل طور پر قابو میں رکھے-
ترک اسباب توکل نہیں
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ توکل کا معنی ہر گز یہ ترک اسباب نہیں- نہ ہی یہ ہے کہ صرف اسباب پر ہی بھروسہ رکھے- اسباب و ذرائع استعمال کرنا منشائے شریعت بھی ہے اور حکم الٰہی بھی ہے- حضور اکرم ﷺ خود بھی اسباب اور وسائل کو بروئے کار لائے، روزمرہ کے معاملات ہوں یا حصول رزق مقصد ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد مقصود ہو- لہذٰا اللہ تبارک تعالٰی کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہوئے روز مرہ کے معاملات میں جائز طور پر اسباب و وسائل کو برائے کار لانا توکل کے اصل معنی ہیں اور یہی توکل کی روح ہے- مومن اگر اس عقیدے پر عمل کرتے ہوئے تمام تدابیر اختیار کرتا ہے جو شریعت کے منافی نہ ہوں کسی بھی کام میں پوری خلوص نیت سے اسباب و سائل کو جائز طور پر استعمال کیا جائے اور پھر خدائے پرتر کی ذات پر ایسے بھروسہ کیا جائے جیسے کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو کوئی شک نہیں ایسے کام میں کامیابی حاصل نہ ہو-روزمرہ معاملات میں ہیر پھیر کے بعد اللہ توکل لیکن اگر وسائل کو من مرضی سےبروئے کار لایا جائے-ناپ تول میں کمی کر کے ناجائز منافع کمانے کی ہوس، رمضان کریم میں اشیاءکی قیمتیں چار گنا بڑھا کر، دودھ میں پانی کی ملاوٹ کر کے، دودھ دینے والے جانوروں کو بے جا ادویات اور انجکشن لگا کر، کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کر کے، جعلی ادویات فروخت کر کے، پنڈامک کے دنوں کا فائدہ اٹھا کر سستے ماسک مہنگے داموں بیچ کر، جعلی ووٹ ڈال کر، کنڈے ڈال کر بجلی چوری کر کے، آنکھیں بند کر کے کسی کو ووٹ دے کر، دفتری اوقات میں ذمے داریوں سے منہ موڑ کر، ایک جائز دستاویز بنانے پر ناجائز رشوت لے کر، ناجائز جگہ پر قبضہ کر کے حق ہُو کے نعرے لگا کر، فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر، مذہبی حلیہ بنا کر مذہب کے نام پر گالی گلوچ کر کے، معصوم بچوں، بچیوں سے اپنی ہوس کی خاطر خود کو بے حرمت کر کے، خواتین کو ان کی اولاد کے سامنے ذیادتی کا نشانہ بنا کر، پولیس کی وردی پہن کر جگہ جگہ غریب عوام سے رشوت بٹور کر، تھانہ میں لے جا کر کسی غریب معصوم کو تشدد کا نشانہ بنا کر جان لینے کے بعد؛اگر ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں کہ وہی ذات اقدس ہماری وکیل ہے اور یہ وطن عزیز ستائسویں رمضان کو آزاد ہوا تھا تو ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ وہ جو بڑا کارساز ہے وہ ہماری تمام کوتاہیوں کے ساتھ اس ملک و قوم کو ترقی عطا کرے گا- اور یہ قوم جو آج تک اپنے گزرے ہوئے عظیم مسلمان دانشوروں کی مثالیں سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اور پوسٹ کر کے خود کو اتنا ہی عظیم سمجھتی ہے تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ؛خدا بھی انہی کی قسمت بدلتا ہے جو اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں- اگر توکل کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف ذات باری تعالٰی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں، اسی یقین کے ساتھ کچھ بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہماری وکیل ہے تو انبیاءکرام کی زندگیاں اتنی دشواریوں سے نہ بھری ہوتیں- حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی ذندگی میں اتنی تگ ودو نہ کی ہوتی- صحابہءکرام کی زندگیاں سچائی و ایمانداری کی مثالیں نہ ہوتیں- اللہ رب العزت نے صحیح راستے پر چلنے کی اتنی تلقین نہ فرمائی ہوتی-جب حصول روزگار اور رزق کمانے کی خاطر کسی غلط راستے کا انتخاب کرنے لگیں تو یہ حدیث ضرور یاد رکھیں؛
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسے توکل کا حق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تم کو اس طرح رزق عنایت فرماتے جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ (ترمذی)۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes