امید۔۔۔۔۔۔۔۔

Published on February 4, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 88)      No Comments

تحریر؛غزل میر
ماں بننا ایک آسان فیصلہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مالی یا ذہنی طور پر کسی تیاری کے بغیر اس سفر کو طے کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ایک نئی زندگی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
جب عورت کی عمر تیس کے قریب ہونے لگے تو اکثر اسے سننے کو ملتا ہے کہ اس فیصلے کو کرنے میں دیر نہ کرے، حقیقت میں اس سفر میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں یہ مسائل سب کیلئے بے شک ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن بہت سے ایک جیسے تجربات سے گزرنے کے بعد لوگ پھر بھی ان کا ذکر ایک دوسرے سے نہیں کرتے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپس میں میاں بیوی یہ فیصلہ کریں بھی کہ اس نئی زندگی کے آغاز کیلئے وہ تیار ہیں تو کچھ لوگوں کو سالوں سال لگ جاتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ عورت مختصر وقت میں امید سے ہوگی۔
عورت یا مرد کی وجہ سے عورت کی گود بھرنا اگر ناممکن ہوتو یہ علیحدگی کی وجہ ہوتی ہے لیکن معاشرے میں بچہ گود لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ محبت صرف ایک خونی رشتہ نہیں ہے۔
اور کچھ گھرانوں میں لڑکی ہونے پر (جو ایک افسوسناک بات مانی جاتی ہے) عورت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں بچے کی جنس ہونے کا تعلق مرد سے ہے۔ یہ بات بھی سنی ہے کہ عورت جب امید سے ہو تو اس کو زیادہ کھانے کی ضرورت ہے کہ وہ ”دو“ کیلئے کھائے۔ اس بات میں سچائی نہیں ہے اور دو بندے جتنا کھانے سے بچے کو دو دفعہ کی یہ زیادہ خوراک نہیں ملتی۔ نتیجتاً اس کا نقصان صرف یہ ہے کہ عورت کا وزن بڑھ جاتا ہے لیکن یہ ذہن میں بھی رکھنا ضروری ہے کہ مردوں سے زیادہ خواتین وزن کم کرنا چاہتی ہیں جس کا تعلق معاشرے میں عورت کے جسم کے بارے میں اس خیال سے ہے کہ وہ دبلا اور ایک قسم کا ہو اور اس لئے قدرتی طور پر مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین ان مسائل کا شکار ہیں۔
عورتیں اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ”خواتین کی اکثریت وزن کم کرنا چاہتی ہے“ اور اس بات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرد عام طور پر اپنے وزن سے زیادہ خوش ہیں ان معاشرتی مسائل کے علاوہ عورت کچھ ایسے مسائل سے بھی گزرتی ہے جن کے بارے میں معلومات نہیں ملتی کیونکہ اکثر لوگ ان باتوں کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے۔
جب عورت امید سے ہو اور بچے کا ہلنا عورت کو محسوس نہ ہو، یہ میاں بیوی کیلئے اکثر پریشانی کا باعث ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر ڈاکٹر کے پاس عورتیں جاتی ہیں۔ ایسے مسائل کا یہ سفر بچے کی پیدائش کے بعد جاری رہتا ہے۔
ہر عورت کیلئے بچے کو اپنا دودھ پلانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس پر عورت سے سوال کئے جاتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر پاتی؟ حالانکہ عورت اپنا دودھ نہ پلا پائے تو بچے اور ماں کے بیچ وہی تعلق ہوتا ہے جو ایک اپنا دودھ پلانے والی ماں کا ہوتا ہے۔
جب مائیں نئے بچے کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں تو پریشان ہونا یا پریشانی محسوس کرنا کوئی عجیب بات نہیں لیکن بے شک یہ عام پریشانیاں ہیں ان کے بارے میں لوگوں کے نہ بات کرنے کی وجہ سے ماں اور باپ کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ عام ہیں۔ اکثر نئی ماؤں کو ڈر ہوتا ہے کہ بچہ سوتے ہوئے مر جائے گا۔ بہت سی ماؤں کو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ ان کے بچے کا دم گھٹ جائے گا یا کسی وجہ سے اچانک اس کی موت ہوجائے گی۔
معاشرے میں بچے کی پیدائش کے بعد اس کو سنبھالنا ذمہ دار ماں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے جبکہ یہ کام اگر باپ کا بھی ہو تو ان مسائل سے گزرنا ماں کیلئے اتنا مشکل نہ ہو۔
میں ایک غزل سے اس آرٹیکل کو ختم کر رہی ہوں
حوصلہ میراث ہے انسان کی
ایک انوکھا ڈر بھی ہے انسان کا
ہر محبت اندھی ہوتی ہے مگر
دل پرکھنا پھر بھی ہے انسان کا
جسم اور روح ساتھ چلتے ہیں مگر
روشن ضمیری گُر بھی ہے انسان کا
ہر نئی امید پر دھڑکے یہ دل
الجھنوں میں گھر بھی ہے انسان کا
خشک پتوں کو بھی دیکھے ہے ہرا
ذہن بازی گر بھی ہے انسان کا
کب محبت کو میں سمجھی ہوں غزل
یہ تو درد سر بھی ہے انسان کا

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy