شادی مشکل کیوں۔۔۔۔۔۔؟

Published on February 9, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 71)      No Comments

تحریر؛غزل میر
پاکستانی روایات مشرق میں بہت دلچسپ لگتی ہیں، اس لئے اپنائی بھی جا تی ہیں، کھانا، کپڑے، زیور، اردو زبان اور شہد سے میٹھے پھل، لیکن ایک کڑوا سچ بھی ہے، کچھ پاکستانی روایات کی حقیقت خو بصورت رنگوں سے لیکر ایک اندھیرا پن ہے۔ حسین لباس، مٹھائی، رنگین قالین، سجے روشن مکان اور امیر غریب کے درمیان بڑھتا فرق۔ یہ صرف ایک بجھتی شمع نہیں ہے بلکہ اسے بجھانے میں معاشرے نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ فرق صرف فرق نہیں، غریبوں کیلئے ایک ایسا بوجھ بن گیا ہے جو اٹھانا صرف مشکل نہیں ہے بلکہ یہ بوجھ رشتے طے کرنے سے لے کر شادی کی آخری تقریب کے اختتام تک اٹھانا نا مکمن ہے۔

یہ سنا ہے کہ لڑکیاں بوجھ نہیں ہوتیں مگر پھر ان کی شادی کی جلدی کیوں ہوتی ہے گھر والوںکو؟
اس کی بہت سی وجوہات ہیں معاشرہ ان میں سے ایک ہے لڑکیاں معاشرے میں ذمہ داری کہلاتی ہیں اور لڑکے یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ یورپ میں یہ مسائل کم اس لئے ہیں کہ صرف لڑکے نوکری نہیں کرتے لڑکیاں بھی کماتی ہیں۔
لیکن کچھ مسائل ایک جیسے ہیں جیسے آج کے دور میں سیرت کے ساتھ صورت کو بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ قد اور رنگت کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا لڑکی کا خاندان کیسا ہے۔ اگر والدین گائوں سے تھے بیشک ان کے بچے تعلیم یافتہ ہیں لوگ رشتہ نہیں کرتے۔
حقیقت میں گھر شادی کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں بناتے ہیں لیکن مکان کرائے کا ہے یا اپنا، یہ سوال بھی اکثر کیا جاتا ہے۔
یورپ میں لیکن اپنی پسند کی شادی عام ہے اس لئے ان مسائل کے ہونے کے باوجود لڑکا لڑکی اپنی بات منوا لیتے ہیں۔
موضوع پر واپس آتے ہوئے جس اندھیرے کا ذکر اس آرٹیکل کے شروعات میں ہے اس پر روشنی ڈالنے کیلئے ایک موجودہ مسئلے پر غور کرتے ہیں جو پاکستان کی ایک افسوسناک حقیقت ہے۔

نکاح کا مقصد دو انسانوں کے ملن کا اعلان ہے۔ جس کا اظہار یقیناً خوشی سے کرنا چاہئے۔ یورپ میں اکثر شادی سمندر کنارے30قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے بیچ ایک دن میں ہو جاتی ہے اور وہ بھی کرائے پر لئے لباس میں۔ اس میں کوئی شرمناک بات نہیں ہے۔ لیکن پاکستانی شادیاں اکثر5دن کی ہوتی ہیں، مایوں، مہندی، نکاح، بارات اور ولیمہ۔ اس کے علاوہ دکھاوے کیلئے حق مہر زیادہ رکھنا بھی ایک رواج بن چکا ہے اور لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ آج بھی کیا جاتا ہے۔ خاندان کے خاندان بلانا اس اعلان کو کرنے کیلئے ضروری نہیں ہیں لیکن ایسا ہوتا ہے اور ہر تقریب کے لباس پر نا مناسب خرچہ کرنا عام بات ہے معاشرے میں۔
کھانا اچھا ہونا چاہئے، لوگ پوچھیں گے کہ میک اپ کہاں سے کروایا، ان لوگوں کی پرواہ اتنی کی جاتی ہے جن کا اکثر صرف ان پانچ دن کی تقریبات میں شریک ہونے کے بعد دوبارہ دولہا اور دلہن کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ان کو دکھانا کہ دولت لوٹانا ایک معمولی بات ہے، محبت کا ایک بہت بڑا مذاق ہے، لاکھوں زندگیاں آباد کرنے کے بجائے برباد کرنے کو خوشی کا اعلان نہیں کہتے، بلکہ یہ ایک ماتم ہے، ان ہزاروں لوگوں کا ماتم جن کے گھر دولت کے بغیر بس سکتے تھے۔

روشنی کی امید دلانے کیلئے یہ محبت کے بارے میں ایک غزل ہے۔ ہم ان رسموں، رواجوں سے نکل کر آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں اور دو دلوں کے ملنے کا اعلان کرنے کا تعلق دولت سے ہے، یہ بات غلط ثابت کرنا ضروری ہے نہ صرف اس لئے کہ وہ لوگ جو کم تر مالی وسائل رکھتے ہیں اس مرحلے سے آسانی سے گزر سکیں لیکن اس لئے کہ محبت امیر انسان کو غریب سے ہو سکتی ہے۔ نکاح غریب اور امیر کے درمیان ناممکن نہیں ہونا چاہئے۔
تمہاری اک نظر جب سے پڑی ہے
مجھے اچھی لگی یہ زندگی ہے
تمہارا ساتھ میرا حوصلہ ہے
تمہارے ساتھ میری ہر خوشی ہے
تمہیں چاہوں گی میں اب زندگی بھر
تمہیں چاہنا عبادت بن گئی ہے
میرے ہر خواب کا محور تمہی ہو
تمہارے ساتھ میری روشنی ہے
تمہیں ہرپل محبت سونپتی ہوں
میری دل میں عقیدت جاگتی ہے
غزل میں اس کی خاطر جی رہی ہوں
خدا سے اس کو ہی بس مانگتی ہوں

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes