ضلع قصور کی سیاسی ڈائری

Published on April 12, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 245)      No Comments

 


تحریر ۔مہرسلطان
ضلع قصور چار قومی اسمبلی اور نو صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر مشتمل ہے۔ جس میں مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی تین اور ارکان صوبائی اسمبلی چھ ہیں۔یہاں پاکستان تحریک انصاف کے ایک ارکان قومی اسمبلی ہیں جبکہ ارکان صوبائی اسمبلی تین ہیں ۔ضلع قصور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے یہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی مسلم لیگ ن کے قلعہ میں شگاف پڑنے والی بات ہے ۔مسلم لیگ ن نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس کے گڑھ ضلع میں پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے مد مقابل کچھ ہی سہی ،چند سیٹیں لے اڑے گی ۔ضلع قصور میں مسلم لیگ ن کے گڑھ میں سے پاکستان تحریک انصاف کا چند سیٹیں لے جانا ایک بہت بڑی کامیابی،برتری اور مسلم لیگ ن کی واضح ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔آگے جاکر بھی ضلع قصور میں پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دیتی دکھائی دے رہی ہے۔اگرچہ زیادہ نہیں مگر کچھ ضرور ،اس لیے کہ اگر مسلم لیگ ن کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی حلقے میں مقبول ہیں تو کم اثر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف بھی نہ ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والے سبھی سیاستدان خواہ ان کا تعلق جس بھی پارٹی سے ہو،بہرحال کچھ نہ کچھ عوامی مقبولیت ضرور رکھتے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے امیدوار ان کے مقابلے میں سیاسی اپ سیٹ کر سکتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کا کبھی ضلع میں کافی اہم مقام ہوتا تھا مگر اب یہ مقام دیگر جماعتوں نے بھی اپنے کام اور پہچان سے حاصل کر لیا ہے ۔ایسے میں اگر صرف یہ کہا جائے کے ضلع قصور صرف مسلم لیگ ن کا ہے دوسرے کا بالکل نہیں ،بالکل بجا نہ ہوگا ۔مانا کے ضلع قصور میں مسلم لیگ نون کا گراف زیادہ مگر دوسری جماعتوں کا کم بھی نہیں ہے ۔ضلع قصور میں پاکستان تحریک انصاف ق لیگ،جماعت اسلامی ،پاکستان تحریک انصاف لبیک ،جے یو آئی کا بھی اچھا خاصہ ووٹ بینک اور اثر و رسوخ موجود ہے۔ایسے میں ضلع قصور کو صرف مسلم لیگ ن کا ہی قلعہ کہنا بالکل غلط ہے حالات و واقعات نے یہاں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار ان کی کامیابی سے ثابت کیا ہے ضلع قصور کسی کا بھی نہیں ہے بلکہ سب کا ہے ۔جو عوام کی خدمت کرے گا وہی بازی سمیٹے گا ۔ضلع قصور میں نے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے افراد کے جیتنے کی وجہ یہی خدمت ،احترام آدمیت اور خلوص ہے کہ ضلع قصور میں اپنی جگہ بنانے میں خاصی حد تک کامیاب رہی۔ ضلع قصور کو مسلم لیگ ن کا قلعہ سمجھنے والی ن لیگ کے لیے اس میں ایک سبق ہے کہ عوام کس کی بھی نہیں ہوتی،صرف اور صرف حق اور سچ کے ساتھ ہوتی ہیں ۔اسے جو بہتر لگتا ہے وہ کرتی ہے ۔اب وہ دن نہیں رہےہیں کہ کسی صوبے ڈویژن یا ضلع کو اپنا لاڑکانہ یا قلعہ کہا جا سکے ۔اب وہ پہلے کی سی صورت حال نہیں رہی کہ اب ہر جگہ سے ہر پارٹی کے نمائندے سامنے آ رہے ہیں ۔اب ضلع قصور بھی کئی جماعتوں کی نمائندگی کر رہا ہے۔ لوگ اب پارٹیاں کم،معیار پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ۔کون کہاں کس کے لیے کتنا زیادہ فائدہ مند دیکھ رہے ہیں ۔ اب قصور میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف ،ق لیگ ،جے یو آئی ،تحریک لبیک کے پرچار کار کم اورکام اور معیار کے زیادہ ہیں ۔اب وہ پہلے سی فضا بالکل نہیں ہے جس میں صرف یہی کہا جا سکے کہ ضلع قصور مسلم لیگ ن کاہے ،اب حالات و واقعات بدل چکے ،لوگوں کی سوچو ں اور سمجھنے سمجھانے کے دھارے بدل چکے ،لوگ اب میچور ،اپنی مرضی کا استعمال کرنا جانتے ،صرف اسی کو ہی بحال رکھتے ہیں جو عوامی نمائندہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہتا ہو ،باقی سب کو زیرو کر دیتےہیں ،کوٹ رادھا کشن کی تاریخ گواہ ہے یہاں سے بہت سے سیاستدان ابھرے ،بہت سے مٹے ،اکثر تو ہمیشہ کے لئے ہی گئے ،یہاں کے لوگوں نے صرف اسی کو قبول کیا جس نے ان کی خدمت کی ،جو خدمت نہ کر سکا ،وہ قصہ پارینہ بن گیا۔کسی جگہ کا بھی نہ رہا ۔ایسے میں کسی ایک جماعت کا ڈھنڈورا پیٹنا بالکل مناسب بات نہ ہے ۔الیکشن کے وقت بارہا لوگوں نے دیکھا ہے کہ یہاں کبھی پیپلز پارٹی،کبھی مسلم لیگ ن،کبھی ق لیگ تو کبھی پاکستان تحریک انصاف کامیاب رہی ہے ۔ضلع قصور کبھی بھی کسی بھی ادوار میں ایک جماعت کاحصہ نہیں رہا،کچھ نہ کچھ نمائندگی ہر دور حکومت میں دیگر جماعتوں کی بھی رہی ہے ۔رہا سوال ضلع قصور میں ترقیاتی کام کروانے کا تو یہاں ہر حکومت نے چاہے وہ کسی کی بھی رہی ہو ،حتی الوسع جتنا ممکن ہو سکا ،ترقیاتی کام کروائے ۔یہ کام پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ہوءے، ق لیگ کے دور میں بھی ہوئے، ن لیگ کے دور میں بھی ہوئے اور اب پی ٹی آئی کے دور میں بھی جاری ساری ہیں ۔وسائل میں رہتے ہوئے ،جس حد تک ممکن ہے ،روڈ سولنگ نالیاں سڑکیں بنائی جارہی ہیں ۔ایسا کچھ بھی انوکھا نہیں ہے جو پیپلزپارٹی، ق لیگ، نون لیگ نے تو کیا ہواور پی ٹی آئی سے نہ ہو رہا ہو۔جیسے ترقیاتی کام ان سب جماعتوں نے اپنے دورحکومت میں کروائے ویسے ہی ترقیاتی کام اب پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی شروع ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے یہ کیا ،فلاں فلاں جماعت نے یہ کیا ، پی ٹی آئی نے کچھ نہیں کیا جیسی باتیں محض صرف دوسروں کو دھوکا دینا اور اپنا دل بہلانے والی باتیں ہیں ۔حقیقت ایسی باتوں کو اپنانے سے عاجز ہے ۔پی ٹی آئی حکومت وہ حکومت ہے جس نے برسراقتدار آتے ہی وہ ادھورے کام بھی مکمل کیے جو دوسروں کے مکمل نہ تھے ۔سب سے پہلے وہ فنڈ لگائے جو پچھلی حکومتوں کے جاری کردہ تھے ۔مشرف اور ن لیگ دور کے بقیہ کام بھی پی ٹی آئی حکومت میں مکمل ہوتے رہے ۔اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے پی ٹی آئی نے کچھ نہیں کیا کچھ نہیں کر رہی ،موجودہ گورنمنٹ میں ہر طرف ہوتے کام کاکریڈٹ عمران حکومت کو ہی جاتا ہے۔عمران خان حکومت سوار نے ملک بنانے اور ترقیاتی کام کروانے میں انتہائی سنجیدہ ہے ،ملکی معاشی صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنی معاشی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جس حد تک ممکن ہے حسب ضرورت انتہائی ضروری اور اہم کام اور امور سرانجام دے رہی ہے ۔ضلع قصور کو خوبصورت بنانے میں اپنا حقیقی رول ادا کر رہی ہے ۔جمبر چھانگا مانگا چونیاں روڈڈبل کر دیا گیا ہے جو مکمل ہونے کے بالکل قریب ہے ۔ضلع قصور میں باقی تمام سڑکوں پر بھی کام ہونے والے ہیں جو گورنمنٹ کی ترجیحات میں سب سے نمایاں ہے ۔پی ٹی آئی حکومت ضلع قصور کے تمام مسائل پر نظر رکھے ہوئے ان کے تدارک کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے ۔بہت جلد ضلع قصور میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بہتری آئے گی کام ہوتے ہوئے نظر آئیں گے ۔تحریک انصاف ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پورے صوبے کو دیکھے ہوئے ہیں ۔ضلع قصور کو اگنور کرنے والی بات بلکل غلط مبنی بر بددیانتی پر مشتمل ہے ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف قصور میں ناکام ہوگئی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ضلع قصور میں مسلم لیگ نون کے قلعے میں شگاف ڈالنے کی طرح اپنے ارکان اسمبلی کو کامیاب دیکھنے کی طرح یہاں وہ دن بھی دیکھنے کو ملیں گے کہ کہ جب ترقیاتی کاموں کی یہاں بہار ہوگی ۔پی ٹی آئی کی تختیاں اور نام ہوں گے جیسے کبھی نون لیگ، ق لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہوتی تھی ۔یقینا یہ پی ٹی آئی کا حق بنتا ہےجسے کوئی روک نہیں سکتا.رہی بات وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کی تو یہ میلا سج چکا ہے،دیکھیے کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی خواہشیں ہونگی پوری کہ رہ جائے گا حکومت کا بھرم.اپوزیشن کا کہنا ہے “یہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے ۔اس سے بہتری کی امید رکھنا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔عمران حکومت کا جانا ٹھہر چکا ،عمران نیازی کو کوئی بچا نہیں سکتا ،نواز شہباز ،فضل الرحمان اور زرداری کی قیادت میں یہ قافلہ چل پڑا ہے عمران حکومت کو لے کر ہی ڈوبے گا ۔تحریک عدم اعتماد ضرور کامیاب ہوگی اور اسے کامیاب کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات انتہائی سخت چل رہے ہیں ۔حکومت مشکل میں ہے ۔عدم اعتماد کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔پی ڈی ایم کے سارے کھلاڑی و مداری عمران حکومت کو گرانے کے لیے یکجا ہوچکے ،ان کو پتہ کہ عمران کی حکومت ان کے لیے شکنجہ اور اور جیل یاترا کا سامان ،یہ حکومت گرانے میں ہی ان کی بقاء ,اسی لئے سبھی مل کر زور لگا رہے کہ عمران حکومت گرا دیں،میچ انتہائی ٹف، مقابلہ سخت ,مارو یا مر جاؤ کی جنگ شروع ،اپوزیشن کو اس میں ہار ہوگی اور وہ بری طرح پٹ کر رہ جائے گی۔تحریک عدم اعتماد ناکامی نوشتہ دیوار ہے “۔یہی بات عمران کے جلسے جلوسوں میں عوام کی تعداد کے کم یازیادہ ہونے کی تو یہ بھی وقت بتا ہی دے گا کہ کس کا جلسہ بڑا اور رتبہ اعلی۔ اور یہ دیکھنے کے لئے کہ پاکستانی عوام میں کون کتنا مقبول، یہ دیکھنے کے لئے وقت آیا ہی چاہتاہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog