تونائی بحران کا حل متبادل ذرائع کی تلاش

Published on May 14, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 301)      No Comments

Maqsood
جرمنی کے بائیر والڈنیشنل پارک کے کنارے ایک چھوٹی سی بستی آبا د ہے ۔اس بستی کا ایک پہلو دو سروں سے کہیں مختلف ہے وہ اس طرح کہ یہ بستی گزشتہ چند برسوں سے اپنے روزمرہ استعمال کے لئے برقی توانائی سورج سے حاصل کررہی ہے اور بجلی کے روائتی نظام سے یکسر لا تعلق ہے ۔سورج کی توانائی کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جو یورپ میں اپنی نو عیت کا واحد منصوبہ ہے یہ بستی شپیشگے لاڈ ڈسٹرکٹ کا حصہ ہے مگر اپنی بجلی کی ضرروت میں خود کفیل ہے ۔اس منصوبے کے لئے ایک ضروری شرط یہ تھی کہ بستی کے مکین بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں گے کیونکہ بصورت دیگر یہ منصوبہ بہت مہنگا پڑسکتاتھا ۔قبل ازیں بستی کوبجلی 200000 وولٹ کی ٹرا نسمیشن لائن سے فراہم کی گئی تھی ۔موسم سرما میں اس کیبل سے بجلی کی فراہمی میں خلل پڑتا تھا۔پرانا کیبل متاشرہو جا نے کے بعد جب نیا کیبل لگانے کی باری آئی تو بائیروک نے فیصلہ کیا کے نیا کیبل لگانے کی بجائے شمسی توانائی کا یونٹ لگایا جائے ۔لہذا س بستی میں نصب شمسی جنریٹر 840 فوٹو وولٹک موڈیول بیس اور موڈیول50 واٹ بجلی مہیا کرتا ہے ۔ہر موڈیو ل کے لیے مجموعی طور پر 360مربع میڑرقبہ درکار ہے ۔دھوپ کے دوران جنریڑ کی پیداواری صلاحیت بڑھ کر40کلو واٹ ہو جاتی ہے ۔اس علاقے میں سال بھر میں تقریبا1700گھنٹے دھوپ رہتی ہے ۔رات کے اوقات اورخراب موسم بھی مطلع ابرآلود رہنے کے دوران بجلی کی فراہمی برقرار رکھنے کے لئے ڈرائی بیڑیاں استعمال کی جاتی ہیں ۔جن میں دھوپ کے دوران شمسی توانائی سے تیار کی جانے والی برقی رو ذخیرہ کی جاتی ہے ،ان بیڑیوں میں 480کلوواٹ گھنٹے کے مساوی بجلی ذخیرہ کی جاسکتی ہے لیکن اس حد سے زیادہ طویل عرصے تک مطلع ابرآلود رہنے اور طویل سردیوں میں مائع گیس موٹر کے ذریعے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔پہلے دو برسوں میں بجلی کی دوتہائی ضروریات موٹو ولٹک نظام سے اور باقی ضروریات مائع گیس موٹر کے ذریعے پوری کی گئیں۔موسم بہار میں مطلع صاف رہنے اور گرمیوں میں سولر یونٹ بجلی کی سو فصید ضروریات پوری کر سکتا ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کے تجرے کے بعد رواں سال بجلی کی فراہمی کا سابق نظام ختم کیا گیا ہے یہ چھوٹی سی بستی سولرانرجی سے روشن رہتی ہے سولرانرجی سے ٹیوب ویل گیزر اور چھوٹے چھوٹے صنعتی پلانٹ چلائے جا رہے ہیں اور یہ آہستہ آہستہ مقبول ترین ٹیکنالوجی کے استعمال میں ارزبروز اضافہ ہوتا چلاجارہاہے کیایہ ہی اچھاہو کہ ہمارے صنعت کار اس ٹیکنالوجی کی تحقیق میں دلچسپی لیں اور گورئمنٹ آف پاکستان اس تحقیقی سرگرمیوں میں نجی تحقیقی اداروں کی معاونت کرے نہ صرف مالی بلکہ ٹیکنیکل بھی جرمن میں نجی طورپر سائنسی و صنعتی تحقیق کے فروغ میں وفاقی حکومت خاصی دلچسبی کامظاہرہ کرتی رہتی ہے ہر طر ح کی سہولتیں مراعات اور ترغیبات کا اہتمام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ جر من میں تحقیقی ادارے بڑے فعال میں ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اگر حکومت سائنسی وتحقیقی مزاج نہیں رکھتی تو نجی طور پر بھی کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا اسی وجہ سے ہم تحقیقی طورپر بہت لاغر ہیں حکومت کو چائیے کہ نجی اداروں کے اشتراک سے ایک ایساادارہ تشکیل دیا جائے جہاں صنعتی و سا ئنسی تحقیقی سرمیوں کو بھرپوراانداز میں فروغ دیا جا سکے اور یہ کو ئی مشکل بات نہیں ہمارے ہاں ایسے بڑے بڑے صنعت کار جن کے پاس فالتو سرمایہ ہے اور وہ صنعتی و سائنسی اداروں کی تشکیل میں شرکت کرسکتے ہیں اور حکومت کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں کہ وہ انکی معاونت نہ کر سکے اسطرح کے اقدامات اٹھاکے ہم سولرانرجی ٹیکنالو جی میں انقلاب برپاکر سکتے ہیں

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme