کڑوا سچ

Published on May 15, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 378)      No Comments

Shahid 

آج سے تقریباً پینتیس چھتیس سال قبل جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور ختم ہوا اور جنرل ضیا نے مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تو اخبارات کے ذریعے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں یہ خبریں ہر خاص و عام تک پہنچنا شروع ہو گئیں کہ مڈل ایسٹ ممالک میں کنسٹرکشن ہو رہی ہے اور انہیں لیبرز سے انجینئرز تک کی ضرورت ہے باہر جانے کے خواہش مند حضرات فلاں فلاں ایجنسی سے رابطہ کریں ۔
اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو ملک سے باہر جا کر کام کرنے یا پیسا کمانے کا شوق یا جنون تھا حتیٰ کہ باہر اور خاص طور پر دوبئی اور سعودیہ کے بارے میں کافی حد تک لوگ جان چکے تھے کہ ایجنسیاں دو یا تین سال کے کنٹریکٹ پر مڈل ایسٹ کے کسی ملک بھجوا دیتی ہیں لیکن پھر بھی لوگ پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک لہر سی آئی اور سب کے سر پر باہر جانے کا بھوت سوار ہو گیا اُن دنوں پاکستانیوں کا خواب دوبئی ہوا کرتا کسی کے ذہن میں یورپ جانے کا خیال نہیں آیا شاید اس لئے کہ یورپ بہت دور ہے وہاں انگریزی بولی جاتی ہے یا کوئی اور وجہ ہو ، عام طور پر مڈل ایسٹ کا چرچا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی خبریں عام ہوئیں تو ملک کے حالات مزید خراب ہونا شروع ہو گئے ، آئے دن جلوس نکالے جاتے اور پولیس جگہ جگہ چھاپے مارتی ہر آنے جانے والے بے گناہ کو ناکردہ جرم میں ملوث کیا جاتا اور تھانوں حوالاتوں میں بند کر دیا جاتا ، انہیں دنوں اُڑتی اڑتی یہ خبریں بھی آنا شروع ہو گئیں کہ یورپ میں سیاسی پناہ مل رہی ہے ، بات سے بات نکلتی کوئی کہتا فرانس سیاسی پناہ دے رہا ہے تو کوئی کہتا جرمنی اور تب لوگوں نے اپنے دور پار کے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں سے بات کی کئی لوگوں کے قریبی دوست یا محلے والوں کی توسط سے رابطے ہوئے ، یورپ میں رہنے والوں نے انہیں گائید کیا اور رفتہ رفتہ یہ ٹرینڈ آیا کہ یورپ جائیں گے۔
یونان ، اٹلی ، سپین ، فرانس ، بیلجیم غرض یہ کہ جس ملک کا بھی ویزہ ملا وہ وہاں چلا گیا ، کچھ لوگ کم تعلیم یافتہ ہونے پر ٹولیوں کی صورت میں اور کچھ اپنے بل بوتے پر سفری معلومات حاصل کرنے کے بعد یورپ کی طرف نکل پڑے ، ان لوگوں میں چند کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور باقی ایک عام شہری کی حیثیت سے صرف پیسا کمانے کی غرض سے نکلے کیونکہ جب ان لوگوں کو مختلف ذرائع سے یہ علم ہوا کہ سیاسی پناہ والوں کے کیس یورپین عدالتوں میں دو تین سال تک پھنسے رہتے ہیں تو سوچا کہ سال دو سال کے ایگریمنٹ پر مڈل ایسٹ میں مزدوری کرنے سے بہتر ہے یورپ کا رخ کیا جائے ۔
اُس زمانے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ قانون کیا ہوتا ہے کہاں ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے ایک دھن سوار ہو گئی کہ یورپ جانا ہے ، چند روپوں میں خود ایمبیسی جا کر ویزے حاصل کئے اور پاکستان کو خیر باد کہا ۔
ہر فرد کا نہ تو کوئی جاننے والا تھا اور نہ ہی کسی کو یہ علم تھا کہ کون سا ملک سیاسی پناہ دیتا ہے لیکن ایک امید اور رِسک ساتھ لئے یورپ کے مختلف ممالک میں جا پہنچے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اپنے اپنے راستے بنائے اور سیاسی پناہ لینے کہ بعد کام دھندے میں مصروف ہو گئے ، اُس زمانے میں سب پاکستانی صحیح معنوں میں پاکستانی تھے ذات برادری یا فرقہ میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کی خواہش یہ ہی ہوتی کہ اسکے شہر یا گاؤں کا آدمی ہی اسکے قریب ہو دوسرے الفاظ میں ڈاک خانہ مل جائے تو اچھی بات ہے۔ مڈل ایسٹ جانے والوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں دو تین سال کے کنٹریکٹ پر کام کریں گے اتنا کما لیں گے کہ واپس پاکستان جا کر کوئی چھوٹی موٹی دوکان کے ساتھ دو چار کمروں کا گھر بھی بن جائے گا اور باقی کی زندگی اپنے ملک میں آرام سے گزر جائے گی ، اور شاید ہوا بھی ایسے کہ جو لوگ مسلم ممالک میں دو چار سال لگا کر واپس چلے گئے انہیں ان کی منزل مل گئی اور ان کا خواب پورا ہو گیا لیکن جو لوگ یورپ آئے وہ مصیبتوں اور مسائل کے پہاڑ تلے دب گئے ، کیونکہ بھلے سب پاکستانیوں نے مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کی لیکن ان سب کا بڑا مسئلہ یہاں کی مستقل رہائش تھا سب نے ہی پیپلز پارٹی کے سیاسی کیس کروائے ، ان دنوں میڈیا اتنا فاسٹ نہیں تھا یورپی ممالک کو پاکستان میں واقع اپنی قونصلیٹ یا ایمبیسی سے رابطے کے لئے ٹیلی فون یا خطوط کا سہارا لینا پڑتا اور اس کیلئے کافی وقت درکار ہوتا اسی بنا پر سیاسی کیس کو منظور کرنے یا ری جیکٹ کرنے میں سال دو سال لگ جاتے اس دوران تمام لوگ کام کرتے رہے اور مارکوں ، فرانکوں اور لیروں میں پیسے کما کما کر پاکستان بھیجتے رہے جب کیس ری جیکٹ ہوئے تو انہیں ملک چھوڑنا پڑا ، جن لوگوں نے اتنا کما لیا کہ انہیں پاکستان جا کر کچھ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے وہ تو خاموشی سے چلے گئے لیکن کئی لوگوں نے ملک چھوڑنے کے بعد پڑوسی ملک میں جا کر نیا سیاسی کیس کروایا اور یوں انہیں پھر سال دو سال کا وقت مل گیا ان میں سے کچھ لوگ فیملی مسائل کی وجہ سے پاکستان چلے گئے اور باقی یہاں اصلی اور جعلی شادیاں کر کے مستقل رہائش پذیر ہو گئے ، ان میں سے کئی لوگ پہلے سے ہی پاکستان میں شادی شدہ اور بال بچہ دار بھی تھے، کئی لوگوں کی سیاسی پناہ منظور ہوئی اور انہیں بغیر شادی کے ہی مستقل ویزہ جاری کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی پاکستان جانے پربھی پابندی عائد کی گئی کیونکہ بقول انہیں لوگوں کے ، کہ ہم سیاسی لوگ ہیں پاکستان میں جمہوریت نہیں آمریت ہے اور ہم وہاں وانٹڈ ہیں اسلئے وہاں نہیں جا سکتے ،لیکن پابندی کے باوجود یہ لوگ اِن لیگل دوسرے ممالک سے پاکستان آتے جاتے رہے ، جو لوگ ہمیشہ کیلئے پاکستان سدھار گئے وہ اِس کہانی سے آؤٹ ہو گئے لیکن جو یہاں مستقل رہے انہیں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
جو پاکستان میں شادی شدہ تھا اور محض ویزے یا مستقل رہائش کیلئے یہاں شادی کی بچہ پیدا ہوا تو اس کیلئے مسئلہ بنا جس نے پہلی بار کسی گوری کالی سے شادی کی بچہ پیدا ہونے پر اسکے لئے مسئلہ بنا ، لڑکا پیدا ہوا تو سب خوش ، لڑکی پیدا ہوئی تو سب نے من گھڑت کہانیاں بُنی بہانے بنائے عورت کو طلاق دی اور کسی دوسرے ملک فرار ہو گئے پلٹ کر دیکھنا تک گوارہ نہ کیا کہ جس کی بدولت وہ آج یورپ میں ہیں اس کا حال ہی دریافت کر لیں ؟
سچائی سے کوئی کب تک منہ چھپا سکتا ہے وہ لوگ انہیں چھوڑ تو گئے لیکن یہ بھول گئے کہ جب تک اس لڑکی کی ماں زندہ رہے گی اسے کہتی رہے گی کہ تیرا باپ پاکستانی تھا ۔ پاکستانیوں کی ان گنت کہانیوں میں ابھی تک کئی کہانیا ں ادھوری ہیں جن پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔
رفتہ رفتہ پاکستان کے حالات نام نہاد جمہوریت آنے پر بحال ہوئے میڈیا نے بھی ترقی کی یورپی ممالک نے عائد کئی پابندیوں کو ختم کیا نئی حکومتیں آئیں نئے قوانین بنائے لوگوں میں شعور پیدا ہوا دن مہینوں اور سالوں میں بدلے دنیا ہی بدل گئی لیکن افسوس پاکستانی جہاں تھے وہیں کھڑے رہے ۔
دو چار دہائیاں ان ترقی یافتہ ممالک میں گزارنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو نہ بدل سکے ، گنتی کے چند لوگ ہی ہونگے جنہوں نے یہاں کے ماحول اور سوسائٹی کو اپنایا لیکن کچھ جاہل اور دیہاتی پاکستانیوں کی تنقید کا شدید نشانہ بننا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے راستے الگ ہو گئے اور انہوں نے اُن علاقوں کا رخ کیا جہاں جہالت سے واسطہ نہ پڑے ۔
اِن ترقی یافتہ ممالک میں سالوں سے رہائش رکھے پاکستانی جہالت اور ترقی کو نہ کبھی سمجھ سکے نہ سمجھ سکیں گے ، ترقی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو یہ گورے کھاتے پیتے ہیں وہی کھایا پیا جائے ترقی کا یہ مطلب نہیں کہ ڈسکو یا شراب خانوں میں رقص کیا جائے یا ناکوں ناک شراب پی کر غل غپاڑہ کیا جائے کہ لوگ دھکے اور گالیاں دے کر شراب خانوں سے باہر پھینکوا دیں یا دھت ہو کر جن کے ملک میں روزی روٹی کمارہے ہوں انہیں برا بھلا کہا جائے یہ سب کچھ کئے بغیر بھی پاکستانی اس سوسائٹی میں رہ سکتے ہیں صرف ذہن کی تبدیلی ضروری ہے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو جس طور طریقے سے پاکستان کا نظام چل رہا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی نشے میں دھت ہو کر ملک کے نام پر جو دھبے لگا رہا ہے اسے نہ تو کسی کلچرکا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مذہبی طریقہ کہا جا سکتا ہے، تو باقی رہ کیا جاتا ہے؟
بات شادی کی ہو رہی تھی ، سال دو سال یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک اِن گوریوں کے ساتھ رہنے کے بعد نہ بن سکی تو انہیں طلاق دے کر پاکستان میں شادی کی اور دو چار ماہ بعد پاکستانی بیوی کو یہاں بلا لیا کہ چلو جان چھوٹی ، ایک تو پکے پکائے پراٹھے ملیں گے رات کو پاؤں بھی دبائے گی اور جیسے جی چاہے گا ہینڈل کرونگا ۔بیوی آجاتی ہے اور مجبوراً ان حالات سے کومپرومائز کرتی ہے کہ شوہر کا ہر حکم سر آنکھوں پر کیوں کہ وہ مسلم اور پاکستانی بیوی ہے مذہب اور ماں باپ نے یہ ہی سکھایا بتایا پڑھایا ہے کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے، لیکن بے چاری بیوی بے خبر ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اپنی بیتی زندگی کی خجل خواری اور بے عزتی کا بدلہ لے رہا ہوتا ہے کیونکہ اُس گوری میم نے اسکے پاؤں دبانے کی بجائے گلا دبایا ہوتا تھا وہ صرف کٹھ پتلی تھا ریموٹ کنٹرول اس گوری کے ہاتھ میں ہوتا تھا یہ سب کچھ سوچ کر شوہر صاحب دل میں تو گوری کو گالیاں دیتے اور پریکٹیکل (دھلائی)پاکستانی بیوی پر کرتے ۔
وقت پَر لگا کر اُڑتا ہے بچے پیدا ہوتے ہیں سکول جاتے ہیں یہاں پھر مسئلہ کہ لڑکا ہے توجو جی میں آئے کرے لڑکی ہے تو نقاب پہنے گی سوئیمنگ کرنے نہیں جائے گی ، بیوی سے جھگڑا فساد بپا کیا جاتا ہے ، کئی عقلمند لوگ بیوی اور بچی کو پاکستان بھیج دیتے ہیں کہ اس غلیظ ماحول میں رہے گی تو خراب ہو جائے گی یہ پاکستانی بیوی کی لڑکی ہے یہ خراب نہ ہو گوری سے پیدا ہوئی لڑکی بھلے خراب ہو جائے ، اس چپقلش میں کئی بیویاں بھی اکڑتی ہیں کہ یہ صرف تمھاری نہیں میری بھی بیٹی ہے اور تمھارے کہنے یا حکم کے پابند نہیں ہیں کہ پاکستان جائیں وغیرہ۔شوہر صاحب بیوی کی چپڑ چپڑ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پھر عقلمندی کا ثبوت دیتے ہیں بیوی پر تشدد کرتے ہیں اور بیٹی کو غیر قانونی طریقے سے پاکستان بھجوا دیتے ہیں لیکن ہر موڑ پر مار ہی کھاتے ہیں ۔
وقت گزرتا ہے بچے جوان ہوتے ہیں تو پھر مسئلہ ، بچوں کی شادیوں کی فکر میں پتلے ہوتے ہیں دونوں میاں بیوی اپنی سوچ کے مطابق اپنے بھانجے یا بھتیجے سے لڑکی کی شادی کروانا چاہتے ہیں یہاں پھر تلخیاں پیدا ہوتی ہیں کچھ عرصہ یہ جنگ جاری رہتی ہے اور بچے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ان کے مستقبل کے بارے میں کیسی کیسی پلاننگ کر رہے ہیں۔ کئی لوگ بیٹیوں کو بہلا پھسلا اور کبھی زبردستی پاکستان لے جاکر جبری ان کی شادیاں کروا دیتے ہیں، کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو محض یہاں بلوانے کے لئے اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو بَلی کا بَکرا بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر سب کی رضا مندی سے معاملات طے بھی پا جاتے ہیں شادیاں بھی ہو جاتی ہیں پاکستان سے بچے یہاں آجاتے ہیں لیکن نتیجہ بہت بھیانک نکلتا ہے ، دو مختلف سوچ میں پلنے بڑھنے والے کبھی ایک نہیں ہو سکتے پاکستان سے آئے بچے یہاں کے ماحول کو قبول نہیں کرتے جھگڑا ہوتا ہے اور سمجھانے بجھانے کے باوجود نوبت طلاق تک آجاتی ہے تب دونوں بڈھا بڈھی ماتھے پر ہاتھ رکھے روتے ہیں کبھی نام نہاد مولوی کے پاس تو کبھی کمیونٹی کے در ، لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا کیونکہ یہ یا اس سے مماثلت رکھتے معاملات تقریباً سب کے ساتھ ہوتے ہیں اور تب یہ لوگ اِن معاملات کی جڑ یا بنیاد کو دیکھنے یا سوچنے کی بجائے حالات کو قصور وار یا یہاں کے ماحول اور ان ملکوں کو کوستے ہیں یا ایک دوسرے کو طعنے مارتے ہیں کہ تیرا بھانجا ایسا ہے یا تیرا بھتیجا ایسا ہے۔ جب کچھ بن نہیں پاتا تو قسمت کا رونا روتے ہیں یا کہتے ہیں اللہ کی مرضی تھی ۔
ان لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ جب پاکستان چھوڑا تو اللہ کی مرضی تھی ، یورپ اور امریکا میں مستقل رہائش رکھنے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھائیں کیا کیا پاپڑ بیلے تو اللہ کی مرضی تھی اپنے ویزے کو مزید پکا کرنے کے لئے بچہ پیدا کیا تو اللہ کی مرضی تھی ، گوری سے بچی پیدا ہونے پر اسے طلاق دی تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی زندگی کے باقی ایام آرام اور سکون سے گزارنے کیلئے پاکستان جا کر کر شادی کی تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی موج مستی کو قائم رکھنے کیلئے عورت پر تشدد کیا اسے قید رکھا تو اللہ کی مرضی تھی ، بچوں کو تعلیم دلوائی تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کروائیں تو اللہ کی مرضی تھی ، اب یہ بچے اپنی آزادی کے لئے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو اللہ کی مرضی تھی۔ ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ سب کچھ تو تم نے خود کیا تھا اللہ کی مرضی کہاں سے آگئی ۔
ہر باشعور انسان وقت اور حالات کے ساتھ خود سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے ۔ لاکھوں پاکستانی یورپ اور امریکا میں سالوں سے رہائش پذیر ہیں ان سب کا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان غیر مسلموں سے واسطہ رابطہ اور تعلق بھی رہا ہو گا کیا کسی نے کبھی ان غیر مسلموں سے یہ سنا کہ گاڈ کی مرضی تھی ۔ یہ لوگ اپنے کسی اچھے یا برے عمل میں اللہ کو بیچ میں نہیں لاتے ، ڈھنڈورا نہیں پیٹتے نعرے نہیں مارتے جیسے مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی دکھاوے اور نمائش کے لئے تو متحد ہو جاتے ہیں اور جب واقعی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجائے جہاں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہو تو انا اور برادری سسٹم کو بیچ میں لے آتے ہیں اور ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوراہ نہیں کرتے، وہاں ان لوگوں کو ذات برادری جیسے جھمیلوں سے فرصت نہیں ملتی ۔پاکستانیوں کی منطق اور ان کا فلسفہ ہی نرالا ہے اتفاق سے کچھ اچھا ہو جائے تو میں نے کیا ہے براہو جائے تو اللہ کی مرضی تھی ۔
کیوں یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان میں نہیں یورپ امریکا میں ہیں ان کی اولادیں یہاں پیدا ہوئیں یہاں تعلیم حاصل کی ، کچھ جاہلوں نے شاید سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی ہو گی اور ان کے بچے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کیا ان جاہلوں کو یہ علم ہے کہ بائیولوجی کسے کہتے ہیں کیا یہ جانتے ہیں کہ ان کے بچے جہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں کیا اور کس کس نازک سبجیکٹ پر کیسی تعلیم دی جاتی ہے، کن کن چیزوں پر ریسرچ کی جاتی ہے ؟ نہیں یہ لوگ کچھ نہیں جانتے ان لوگوں کو اپنے کلچر اور مذہب کے علاوہ کچھ علم نہیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کی راہ میں روکاوٹ ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ لوگ چند ماہ و سال کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے لیکن اپنی جہالت سے اپنی اولاد کو اندھے کنویں میں دھکیل جائیں گے ، ان لوگوں کا علم یا سوچ صرف اپنے بچوں کی شادی اور پھر جلد از جلد پوتا یا نواسا دیکھنے تک ہی محدود ہے اور یہی انکی زندگی کا فل سٹاپ ۔
ان لوگوں نے اگر اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا تو یہ بات تحریر کرنے میں کوئی عار نہیں ،آج نہیں تو کل ان کے بچے ان کے زبردستی کے کلچر اور مذہب کو قبول نہیں کریں گے اور گھر چھوڑ کر اپنی تعلیم اور مستقبل کیلئے کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے تب یہ لوگ کسے منہ دکھانے قابل رہیں گے ، حقائق سے منہ چھپانے سے بہتر ہے ماحول اور سوسائٹی کو قبول کریں اگر نہیں کر سکتے تو وہیں واپس چلے جائیں جہاں سے آئے تھے لیکن بچوں کو زندہ درگور نہ کریں انہیں انکی مرضی سے جینے دیں کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ پاکستان سے آیا ہوا کوئی بھی انسان یورپ یا امریکا کے ماحول کو قبول کرے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ مغرب ممالک میں پیدا ہوا انسان پاکستان کے ماحول اور سوسائٹی کو قبول کرے ، ان بچوں کیلئے پاکستان میں زندہ رہنا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار ہے ۔
مثالیں ہزاروں لاکھوں کروڑوں کی دی جاتی ہیں چند لوگوں کی نہیں۔۔۔۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes