اصل المیہ

Published on August 31, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 59)      No Comments

تحریر۔۔۔ صفدر علی خاں
المیہ یہ نہیں کہ قدرتی آفات نے گھیر لیا ہے بلکہ آج پاکستان کے حالات کی بے یقینی اور افراتفری میں بھی اقرباء پروری کا چلن اور مفادات کی سیاست اپنائے رکھنا اصل المیہ ہے ،اس وقت پوری قوم کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے تھا مگر کسی مرحلے پر بھی پیش بندی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ،حالات مسلسل خرابی کی طرف گامزن ہیں ،بلاشبہ سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں ،پہلے سے متاثر ہونے والے علاقوں سے انخلا کا الرٹ جاری کیا جاچکا ہے ،مگرسیلاب کی ممکنہ تباہی والے علاقوں سے لوگوں کا بروقت انخلاء کیوں ممکن نہ ہوسکا ؟اس حوالے سے ہم اب آنکھیں بند کرکے ساری ذمے داری حکومت پر ہی عائد کرنے کا بھی وقت نہیں ہے کیونکہ حکومت اپنے تئیں بہت کچھ کربھی رہی ہے ۔ادھر سیاست سے بالاتر ہوکر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف نے سیلاب زدگان کی امداد پرتمام سیاستدانوں کیساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان کیا ہے ۔یہ بات اپنے گزشتہ کالم میں ہم کرچکے ہیں کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ،اپنے لاکھوں ،کروڑوں سیلاب سے متاثرہ ہم وطنوں کی مل کر مدد کرنے کا راستہ اپنایا جائے ،سیاسی اختلافات اور مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف مجبوروں ،ناداروں اور مصائب کا شکار لاچاروں کی عملی طور پر مدد کرنے کی صورت نکالی جائے ۔آج اگر ہمارے رہنمائوں نے قومی فریضہ سے کسی مرحلے پر بھی پہلو تہی کی تو تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ۔قومی یکجہتی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ تمام پاکستانی عملی طور پر اس قیامت کی گھڑی میں اپنے سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کرتے اس حوالے سے اپنے گھروں کے دروازے کھولتے شہروں اور قصبوں میں عارضی ٹنٹ والی بستیاں بسا کر متاثرین کو بلاتے بلکہ خود قریبی علاقوں میں پہنچ کر تباہی کے الرٹ جاری ہونے پر ہی اس طرز کی ابتدائی امدادی کارروائیاں کرتے تو انکی جانیں اور مویشی تو بچائے جاسکتے تھے ،کم ازکم جانی ومالی نقصان ہوتا اور بحالی کے حوالے سے بھی حکومت سے تعاون کرتے ،مخیر ادارے ،تنظیمیں اور شخصیات بھی ایک مربوط لائحہ عمل کے تحت منظم طریقے سے امدادی سرگرمیاں جاری رکھتے ،غرض کہ معاشرے کاہر فرد ہر طریقے سے ایک دوسرے کیساتھ جڑ کر انتہائی سلیقے سے تیزرفتارامدادی کارروائیوں سے دنیا کے لئے ایک نئی مثال بن سکتے تھے مگر اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ آج ابتلاء کے اس دور میں بھی اہم سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنمائوں کو اپنے اپنے مفادات کی پڑی ہے ،وجہ شہرت کی خاطر فوٹو سیشن کی غرض سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے اور اعلانات ہی پر اکتفا کرتے ہوئے معمول کی سیاست کو آگے بڑھانے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے ،قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک ایسی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کردیا جسے آزادی کی حقیقت کا شعور ہی نہیں تھا آج تو معاملات ہی اپنوں سے اپنائیت کے برملا عملی اظہار کا تقاضہ کرتے ہیں ،قوم کو خود غرضی کے چلن کو چھوڑ کر دوسروں کی مدد کرنے کے جذبے سے سر شار کرنے کا وقت ہے اور سیاسی رہنمااس حوالے سے اپنا حقیقی کردار نبھاتے ہوئے نئی تاریخ رقم کریں ،آج مشکل کی گھڑی سب پاکستانیوں کے عملی کردار کا تقاضہ کرتی ہے ۔پاکستان میں مون سون کے غیرمعمولی طویل سیزن کے دوران بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے حالیہ ڈھائی ماہ میں 1033 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ملک میں سیلاب کے اب تک نقصانات کا تخمینہ نو سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔ ادھر این ڈی ایم اے نے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی کے متاثر ہونے کا تخمینہ ظاہر کیا ہے
این ڈی ایم اے کے مطابق اب تک ملک کے 110 اضلاع میں جانی یا مالی نقصان ہوا ہے جہاں قریب ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے وہیں دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں۔صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 16 اضلاع کی 49 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثرین میں شامل ہے۔صوبہ بلوچستان کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں۔پنجاب میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے کل 8 اضلاع اور وہاں کی چار لاکھ 45 ہزار سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 90 فیصد لوگ سیلاب سے مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہیں۔ سڑکیں، پل اور مکانات سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں، ہزارکے قریب انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لوگ بے گھر اور بے سروساماں اونچے مقامات اور کہیں کہیں انتظامیہ کے فراہم کردہ ٹینٹ میں بے یارومددگار بیٹھے ہیں۔خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع میں سیلاب سے 50 ہزار لوگ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں ،شمالی علاقہ جات میں سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا ہے پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے ،محکمے روزانہ کی بنیاد پر ہر طرف پھیلانے والے تباہی کی پیشگی اطلاع دے رہے ہیں ،احتیاط اور امداد سے بہت کچھ بچایا جاسکتا ہے مگر کہیں بھی کسی علاقے میں بروقت پیش بندی کا فقدان سے جانی ومالی نقصان ہورہا ہے ،پوری قوم کو اس حوالے سے یہ سوچنا چاہئے کہ اس قدرتی افتاد پر مصائب کا شکار ہم وطنوں کو بے یارو مددگار چھوڑنا ہی تو کہیں اصل المیہ تو نہیں ؟.

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题