ڈاکٹرعافیہ کی رہائی آخر کب؟

Published on June 18, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 66)      No Comments

تحریر عقیل خان
دو ہزار تین میں پاکستان سے اغوا ہونے والی لڑکی جس کو بعد میں امریکہ کے حوالے کردیا گیا تھا آج تک ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس دن سے لیکر کچھ دن پہلے تک کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کس حال میں ہے۔ اس پر کیا ظلم وستم ڈھائے گئے۔ 2003 سے لیکر آج تک پاکستان کے سیاسی حالات بدلتے رہے مگر کسی نے ڈاکٹر عافیہ کی طرف سے آواز نہیں اٹھائی۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ وہ ہستی ہے جوعورت ہونے کے باوجود اپنی بہن کی جنگ ہر محاذ پر لڑتی رہیں۔ مجھے یاد ہے میں نے ڈاکٹر عافیہ کے لیے جون 2013 میں کالم لکھا تھا اور شاید اس وقت ڈاکٹر عافیہ کے لیے لکھا جانے والا وہ پہلا کالم ہو۔ اس کے بعد ڈاکٹر فوزیہ نے مجھ سے ملاقات بھی کی اور کئی بار ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا۔
کچھ روز قبل خبر سننے کو ملی کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن سے ملنے امریکہ جارہی ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں اچانک یہ تازہ ہوا کا جھونکا صدیقی فیملی کے لیے کسی غنیمت سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی امریکہ میں اپنی بہن سے ملاقات کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگ کے دوران جس قضیے میں عافیہ کو گرفتار کیا تھا وہ نام نہاد جنگ بھی ختم ہو چکی ہے اور امریکہ نے اس جنگ میں اپنی غلط فہمی اور شکست تسلیم کرلی ہے۔ امریکی قونصلیٹ عافیہ کو پاکستان کی حکومت کے حوالے کرنے کو تیار ہے لیکن فوزیہ صدیقی کے بقول پاکستانی حکومت عافیہ صدیقی کی واپسی میں کوئی گرم جوشی نہیں دکھا رہی بلکہ دلچسپی ہی نہیں لے رہی۔
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے لا پتہ ہوئے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات تشویش ناک صورتِ حال میں ہوئی ہے۔ڈاکٹر فوزیہ کو اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔
جیل کے ایک کمرے میں دونوں بہنوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا اور اس کے آر پار دیکھتے ہوئے یہ ملاقات ہوئی تھی۔عافیہ صدیقی سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈریس میں تھیں۔ڈھائی گھنٹے کی ملاقات میں پہلے 1 گھنٹے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات سنائیں۔
ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ مجھے اپنی امی اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں، انہیں اپنی والدہ کی وفات کا علم نہیں ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور ان کو سر پر ایک چوٹ کی وجہ سے سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔بقو ل ڈاکٹر فوزیہ عافیہ نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں کوئی مسلما ن باقی ہے؟کیونکہ میں حافظ قرآن ہوں اور جیل میں قرآن پاک کے اوراق زمین پرڈال کر ان پر مجھے چلنے کو کہا جاتا ہے اگر میں نہ چلوں تو مجھے بولا جاتا ہے کہ تمہیں عدالت پیش نہیں کیا جائیگا اور اگر پیش کیا گیا تو برہنہ پیش کریں گے جب میں نے چلنے سے انکار کیا تو مجھے مار مار کر لہولہان کردیا۔ ڈاکٹر عافیہ کا کہنا تھا کہ میری نہیں تو کم ازکم قرآن پاک کی بے حرمتی تو رکوا دیجئے۔ ڈاکٹر عافیہ کی درد بھری کہانی سن کر ہرایک پاکستانی نہ صرف غمزدہ ہے بلکہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ڈاکٹر عافیہ کا جرم کلبھوشن یادیو اور ابھی نندن بڑا ہے؟
ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کے درمیان دوسری ملاقات جولائی یا اگست میں متو قع ہے۔ ڈاکٹر عافیہ ملک کی بیٹی ہے اس کی رہائی ضروری ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے فوری اقدام کرے۔ اب جب اتنے عرصے بعد برف پگھل رہی ہے تو حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ہرقدم اٹھائے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题