ارمان ِدل

Published on March 5, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 677)      2 Comments

Uzma

قسط نمبر4

رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا

بابا!پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔ ضد کرتے ہوئے ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

مگر بیٹی۔۔۔دھاگے  میں موتی پروتے وہ رک گئے۔

ضرورت ہی کیا ہے آخر جاب کی۔۔وہ سوالیہ طور پر پوچھنے لگے۔

بابا۔۔۔

ضرورت نہیں ۔۔۔مگر۔۔۔۔۔میں کچھ سیکھنا چاہتی ہوں

تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔۔وہ سمجھاتے ہوئے انہیں ساری بات کو  واضح طور پر بتانے لگی۔

وہ۔۔۔وہ سب تو ٹھیک ہے مگر۔۔!

تم کیسےپریشان ہوتے  ہوئے انہوں نے اسکی طرف دیکھا۔

بابا۔۔۔!ان کی بات کاٹتے ہوئے۔

بے فکر رہئے آپ۔۔۔!

خود اعتمادی آجائے گی مجھ میں۔۔

پلیز۔۔!مان جائیے نا!!!

ضد پہ ضد کرتے  ہوئے وہ بار بار ان سے کہنے لگی۔

اچھا۔۔۔!

اچھا۔۔!ٹھیک ہے۔۔!!

مگر اپنا خیال رکھنا۔۔!وہ ہارکو گرہ لگاتے ہوئے تیار شدہ ہاروں پہ رکھتے ہوئے بولے۔

جی۔۔۔!!بہت پیارا بن گیا ہے ہار با با۔۔!ہار کو دیکھتے ہوئے آنکھوں میں چمک لیے ہوئے تھی۔۔!!

ہاں!!

یہ لو۔۔یہ تم رکھ لو۔۔۔انہوں نے ہار اٹھا کر اسے دیا۔

ارے۔۔۔ن۔۔نہیں بابا ۔۔1وہ مسکرائے۔

میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی۔۔۔۔ہار پکڑکر واپس رکھتے  ہوئے وہ بولی۔

نہیں رکھو تم۔۔۔

تمہیں اچھا لگا نا!!مسکراتے ہوئے وہ اس سے پوچھ رہے تھے۔

ہاں بابا وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔۔

اگر مگر۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔رکھو۔۔!!اسے ہار پکڑاتے ہوئے دعائیہ کلمات کہنے لگے۔

شکریہ بابا۔۔۔!اظہار تشکر سے کہتے ہوئے  وہ مسکرانے لگی۔

اچھا۔۔میں جاؤں ؟؟مسکراتے ہوئے اجازت لے رہی تھی ۔

کہاؐ؟؟؟پوچھتے ہوئے۔۔۔

وہ ۔۔۔بابا۔۔۔وہ رکی اور پھر ہولے سے مسکرائی۔

جاب۔۔۔!

    ایک جگہ سی وی دی تھی نا۔۔۔

 آج انٹرویو ہے وہاں۔۔۔!!اطلاع دیتے ہوئے۔

ام م م م۔۔۔!!

اچھا۔۔۔۔!!اللہ تمہیں کامیاب کرے۔۔۔دعائیہ کلمات کہتے ہوئے اس کے سر پر رکھا۔

٭٭٭٭

کیا ہو رہا ہے؟؟؟شرارتی انداز میں ا س کے کمرے میں آتے ہوئے شکیل بنا اس کے کہے  کرسی پر بیٹھ گیا۔۔

ہونا۔۔۔!کیا ہے۔۔۔!ذرا تیکھے لہجے میں جواب دیتے ہوئے۔

اوئے ،موڈ کیوں آف ہے تمہارا۔۔۔مزید اسے تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے پاس پڑے بسکٹ کھانے لگا تھا۔۔

ایک بھی ڈھنگ کا بندہ نہیں ہے یہاں۔۔۔!

ٹائم ہی ویسٹ کیا ہے آج انٹرویوز لے کر۔۔۔وہ غصہ سے اسے کہہ رہا تھا۔۔ 

بریک کے بعد ۔۔بے فکر رہو۔۔

وہ ہنستے ہوئے ا س کو ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔کیا پتہ کوئی ڈھنگ  کا بندہ مل ہی جائے۔

مجھے نہیں لگتا ۔۔۔!کندھوں کو اچکاتے ہوئے ارمان اس سے بات کرنے کے بعد پاس  پڑے فون پر کا ل  ملاتے ہوئے بریک کے بعد انٹرویوز لینے سے منع کرنے لگا۔

اوئے۔۔۔!منع کیوں کر رہے ہواس کو سمجھاتے ہوئے ۔

بس ۔۔۔میرا دماغ خراب کر دیا ہے لوگوں نے۔۔۔!!!

اتنے کوالیفائیڈ ہونے کے باوجود کامن سینس  ہی نہیں۔۔۔ 

  میں نے پوچھا ۔ آپ کی سامنے والی دیوار کا رنگ اگر وائٹ ہے تو پیچھے والی دیوار کا رنگ کیا رنگ ہو گا؟؟؟؟   

ہاں ۔۔!تو۔۔۔!!!مسکراتے ہوئے اس کی بات کا انتظار کرنے لگا۔۔!

پتہ ہے ۔۔۔!اس کا تجسس بڑھاتے ہوئے وہ بات کرتے کرتے رکا۔

کہتا ہے ۔۔۔۔!سوری۔۔

اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔۔!زچ ہو کر کہتے ہوئے اس نے برا سا منہ بنایا۔

شکیل اس کی بات سن کر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔۔۔۔

تم نے تو حد ہی کی۔۔۔!!!!

مگر۔۔

اس نے بھی  حد کر دی۔۔!!اس نے مزید ہنستے ہوہے اس کے پاس  ٹیبل پر دو تین  بسکٹس اٹھائے۔۔۔!!جبکہ ارمان اس کی ہنسی کو دیکھتے ہوئے دھیما سا مسکراتے ہوئے فائل کا مشائدہ کرنے لگا تھا۔

٭٭٭٭

ایکسکیوزمی ۔۔۔!!!مسکان  آگے بڑھتے ہوئے ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی سے بات کرنے لگی۔۔! 

جی۔۔۔!

وہ ۔۔۔انٹرویو کب تک ہو گا ََ؟؟؟فائل کو ہاتھ میں تھامتے  ہوئے اس نے دریافت کیا۔

  سوری میم۔۔۔!!!

آج انٹرویو نہیں ہو سکے گا۔۔!!

مگر۔۔!مگر کیوں۔۔۔!پریشان ہوتے ہوئے

ہیں ذرا ۔۔۔!! شرمندہ ہوتے ہوئے وہ اسے جانے کا کہہ  رہی تھی۔۔!! بزی انفیکٹ۔۔۔۔۔سر

وہ خاموشی سے اس کی بات سنتے ہی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔مگر امید کی کرن اس طرح بجھے گی اسے اندازہ نہیں تھا۔3 گھنٹے انتظار کرتے کرتے اس کی ٹانگیں اور کمر تھک چکی تھی۔۔۔

٭٭٭  

کچھ ہاتھ ہی بٹا دیا کروتم ۔۔و   ہ گڑیا کو باتیں سنا رہی تھیں

جب دیکھو کالج    سے آتے ہی فون پکڑ لیا۔۔۔۔یا پھر        ٹی وی ۔۔۔

وہ غصہ کرتے ہوئےآٹا گوندھ رہی تھیں۔

امی۔۔۔۔!!زچ ہوتے ہوئے ،مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام۔۔۔!نخرہ دکھاتے  ہوئے۔

اور پلیز ۔۔۔مجھے ڈانٹنا ہو تو ۔۔۔!!

ذرا پیار سے ڈانٹا کریں۔۔۔!!اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کرنے کی کوشش کرتے ہوئےوہ ہنسی اور ٹیلی فون کا ریسیور نیچے رکھا۔

اچھا۔۔۔! اچھا۔۔۔۔!!تھوڑ   ا ریلیکس ہوتے ہوئے ۔

جا کر ذرا دال کو بگھار لگادے ۔اسے حکمیہ انداز  میں کہتے ہوئے ۔۔۔۔اور یہ اپنی دوستوں سے کالج میں ہی باتیں کیا کرو ۔۔۔سمجھی۔۔۔!!!

امی ۔۔۔۔!!

آج بھی دال۔۔۔!!!!زچ ہو تے ہوئے وہ موبائل فون  پکڑے فوراَََاٹھ کر کچن میں چلی گئئ تا کہ ثریا کو اندازہ نہ ہو کی فون کس کا تھا۔

حالات ہی ایسے ہیں کہ دال پک جائے  تو بڑی بات ہے  اور یہاں ان سب کو نخرے آتے  ہیں۔۔۔وہ گڑیا کےجانے بعد بڑبڑاتے ہوئے  خود سے باتیں کررہی  تھی۔

آگئی میری بچی۔۔۔!

اسے دروازے سے داخل ہوتا دیکھ کر غصہ دور کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھ رہی تھی۔

گڑیا۔۔۔!

پانی لاؤبہن کے لیے۔۔!!اسے آواز لگاتے ہوئے۔

بیٹھ جاؤ۔۔!!اسے بیٹھنے کے لیے بولا۔

جی۔۔۔۔!!!!اور گڑیا کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑنے لگی۔

ملی کوئی نوکری۔۔۔!!!مسکراتے ہوئے جلد ہی مطلب کی بات کرنے لگی۔۔۔!

وہ پانی کا گلاس منہ کو لگانے ہی والی تھی کہ اس کی بات سننے کے بعد رک سی گئی۔۔۔!!

ن۔۔نن۔۔۔نہیں۔۔۔!!

لیکن ۔۔۔کل ایک جگہ جاؤں گی سی وی لے کر۔۔۔۔!!

تو آج کیا ہوا؟؟؟اس سےوضاحت مانگتے ہوئے۔

انٹرویو نہیں ہوا۔۔۔!افسردہ ہوتے ہوئے بتانے کے فوراَََ بعد اٹھ  کر وہاں سے چلی گئی۔۔

ثریا اسے یوں جاتا دیکھ کر منہ بنانے لگی تھی۔

نجانے۔۔۔!وہ اپنے کمرے  میں جلد ی سے آتے ہوئے کہنے لگی

کیوں۔۔۔!!

کیوں ایسا ہی ہوتا ہے میرے ساتھ۔۔۔!!!خود کو کوستے ہوئے وہ اشکبار ہوئی۔

امی کی مجھ سے نرمی صرف ۔۔۔مطلب کے لیے ہی کیوں؟؟؟

وہ آنسوؤں کو پیتے ہوئے فریش ہونے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔۔۔

٭٭٭٭

جاری ہے

Readers Comments (2)
  1. uzma says:

    Thanxxxx for publishing

  2. maya says:

    Awesome.. love this





Premium WordPress Themes

WordPress Blog