اظہار رائے کے فائدے اور نقصانات

Published on July 13, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 201)      No Comments

تحر یر: غزل میر
سویڈن وہ ملک ہے جہاں مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات سب کو میسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی سماجی نظام بھی قائم ہے،یورپ میں اظہار رائے کا ہو نا مثبت ہے لیکن کچھ دنوں سے سویڈن میں اس کے غلط استعمال ہو نے کی وجہ سے اس کی اصل اہمیت ختم سی ہو تی نظر آتی ہے ۔
اظہار رائے کا تعلق جمہوریت کے نظام سے ہے جوکہ پرانے زمانے کی ثقافت کا حصہ ہے۔
اظہار رائے نظام میں بدلائو لا نے کیلئے بہت ہی ضروری ہے جب لو گوں کے پاس یہ طاقت ہو تی ہے کہ حکومت میں تبدیلی لا ئیں،اظہار رائے کی آزادی حکومتی ظلم کی طاقت کو کم کردیتی ہے کیو نکہ یہ افراد کو تنقید اور اظہار کرنے کی اجازت دیتی ہے،اس حق کے ساتھ انسان کو اپنی ذاتی آزادی کھونے کا کو ئی خو ف نہیں ہے کیونکہ اس کی رائے اس گفتگو کا ایک حصہ ہو تی ہے لیکن یہ قانون کب اظہار رائے نہیں رہتا اس کا فیصلہ کو ن کرے؟ کب لوگوں کی حفاظت کرنی ہو گی یہ مشکل یو رپ میں اس وقت مو جود ہے معاشرے میں اظہار رائے ے کے حق کا ہو نا اس بات چیت کی بھی اجازت دیتا ہے۔
انٹر نیٹ کی بدولت اظہار آزادی افراد کیلئے غلط معلومات اور جھوٹ کو پھیلانا آسان کر دیتی ہے۔تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ویکسننیشن
بچوں آٹزم کا خطرہ بڑھا تی ہے، لیکن آپ کوآن لائن ایسی ”معلومات” ملیں گی جو کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے۔مگر اظہارائے کا حق مو جود ہو نے کی وجہ سے ایسی غلط انفامیشن انٹرنیٹ پر محفوظ ہے۔
کچھ لوگ اپنی آزادی اظہار کو نفرت یا لو گوں کو بھڑکانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔دوسرے اسے پرامن تبدیلی کی صلاحیت پیدا کرنے کے طر یقے کے طو ر پر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی رائے کا بیاں کرتے ہو ئے افراد کو یہ بھی ذہین میں رکھنا ہے کہ انہیں ہر کسی کی بات کا نقطہ نظر پر غور کرنا پڑتا ہے۔چاہے وہ اس وقت اس سے متفق نہ ہوں اور یہ عمل کامیاب ہو نے کیلئے ہم سب کو صبر کی ضرورت ہے۔ لیکن اظہار رائے کی آزادی کامطلب یہ نہیں ہو نا چاہیے جو سویڈین میں اس وقت ہے کہ آپ کسی بھی چیز کا اظہار اس انداز میں کر سکیں یہاں تک کہ اگر آپ کی رائے ناگوار، بدتمیز یا غیر مقبول ہے یہ حق آپ کو اس کے اظہارکا اختیار پھر بھی دے۔
اظہار رائے انسان کو آزادی سے اپنے خیالات بیاں کرنے دیتی ہے لیکن لوگوں کو ان کے ذاتی انتخاب کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہے جب کو ئی دوسرے کیخلاف تشدد کرتا ہے کیونکہ وہ نفرت انگیز رائے رکھتا ہے تو اس نے قانون کو توڑنے کا انتخاب کیا ہے۔
جب کسی کی بات کے پیچھے نیت ٹھیک نہ ہو اور اگر انسان اپنی رائے کا اظہار کرتاہے یااپنے تجربات کو واضح طور پر دوسروں کو نقصان پہنچانے اور تو ڑنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کیلئے وہ جو طر یقے استعمال کرتا ہے یہ سب بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ آزادی اظہار کی زیادتی ہے اور اس کیلئے انسان کو جوبدہ ہو نا چاہے۔
”میں آپ کی باتوں سے متفق نہیں ہوں لیکن میں آ پ کے کہنے کے حق کا مرتے دم تک دفاع کروںگا”آزادی اظہار کے بارے میں اکثر یورپ کی عوام یہ رائے رکھتی ہے۔ یہ ایسی صورتحال پیدا کرتی ہے جہاں لو گوں کو جنس پر ست یا نسل پر ستانہ اور زبانی بدسلوکی کو برداشت کرناپڑتا ہے، کیا معاشرے کیلئے یہ واقعی فاہدہ مند ہے کہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے مقصد سے تو ہین کر نے کیلئے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی جا ئے؟
کسی بھی مذہب کی تو ہین کر نا اظہار رائے نہیں بلکہ سویڈن میں بھی جرم ہے لیکن یورپ میں کو ئی بھی انسان احتجاج کرنے کیلئے درخواست بھیج سکتا ہے یہ درخواست پو لیس کو پہلے جا تی ہے جو اگر وہ منظور کر دے تو کوئی بھی انسان کسی بھی مذہب کے خلاف احتجاج کرسکتا ہے۔
ڈنمارک، فن لینڈ اور ناروے نے معذرت کرنے کے بعد ایسے ہونے والے احتجاج آگے نہیں جا نے دئیے، لیکن سویڈن کی حکومت کا اس معاملے میں ویسا ہی ردعمل نہ ہو نے کی وجہ سے57 اسلامی ریاستوں نے ایسے احتجاج کی منظوری کا نہ ہو نے کیلئے ایک قانون بنانا چاہا ہے جس میں آئندہ کوئی بھی انسان قرآن کی تو ہین نہیں کرے گا۔بدلے میں سویڈن کو ان کی نیٹو کی درخواست منظور ہو نے میں دشواری کا سامنا کر نا پڑا،ترکی نے بھی اسی وجہ سے اسے مسترد کردیا تھا۔
کویت نے اسلام اس کی رواداری، اسلامی اقدار اور لوگوں کے درمیان اتحاد کے حقیقی معنی کو پھیلانے کیلئے ایک لاکھ قر آن پاک سویڈن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سویڈن میں مو جودہ گفتگو یہ ہے کہ کیسے اظہار رائے کو محفوظ رکھا جائے کیونکہ اظہار رائے سب کے حقوق اور آزادی کے تحفظ کیلئے ضروری ہے، پر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ آزادی اظہار کی کو ئی حد نہیں ہو نی چا ہے۔ یہ لکیر کہاں کھنچی جا ئے؟ اگر نفرت انگیز رائے کیلئے قانون حد سے زیادہ سخت ہے تو کیا یہ آزادی اظہار کے حق کو متاثر تو نہیں کرے گا؟ کو ن فیصلہ کرے کہ حدود کہاں ہے اور کیا قابل قبول ہے؟
آزادی اظہار کے فاہدے اور نقصانات یہ بتا تے ہیں کہ معاشرے کی بھلائی کیلئے کچھ حدیں ہو نی چاہیں، لوگوں کو کسی بھی وقت جو چاہیں کہنے یا کرنے کی اجازت دینے سے نقصان کا خطرہ بڑھتا ہے،کیا ہم واقعی ایسی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کسی کو کوئی بھی برائی کے بارے میں مثبت طور پر لکھنے کی اجازت اور یہ ایک محفوظ حق ہو؟
ایک بار جب ہم” اچھی” اور ”بری” رائے کا فیصلہ کر نا شروع کر دیں گے تو اس سے بد سلوکی کا دروازہ بند تو نہیں ہو تا لیکن اس میں کمی ضرور ہو گی۔
آخر میں ایک غزل سے اس کالم کا اختتام کررہی ہوں۔
یہ دنیا بھی دیوانی ہے
سب جانے مگر انجانی ہے
قدر نہیں تھی ناقبول بھی۔
نامکمل سی یہ کہانی ہے۔
وقت ہے وہ گزر گیا۔
امن میں گزری جوانی ہے۔
جن کے ہو ئے ماضی میں جگر کے ٹکڑے۔
ان کی بات اب تک مانی ہے۔
آزادی کے جشن ہیں منائے جاتے۔
رائے میں تبدیلی تو ابھی آنی ہے۔
ہری بری ہے گھاس یہاں۔
اب گھر بچھڑے کی فصل اٰ گانی ہے۔
یہ دنیا بھی دیوانی ہے۔
سب جانے مگر انجانی ہے۔
۔۔۔۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题