آلودگی کو کم کرنے کیلئے سویڈن کے مثالی اقدامات

Published on July 24, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 142)      No Comments

تحر یر:غزل میر
آلودگی آج کی دنیا میں بہت ہی سنگین مسئلہ بن چکی ہے، آلودگی کیلئے بڑی کمپنیوں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہے لیکن بہت زیادہ آلودگی ہماری روزمرہ کی عادتوں کی وجہ سے ہے۔سویڈن میں(ری سائیکلنگ ) ہر چیز دوبارہ استعمال کر نے کا نظام ہے،ری سائیکلنگ سے بہت سارے قدرتی وسائل جیسے جنگل،دھاتیں،پانی اور ریت کی بچت ہو تی ہے،ری سائیکلنگ کے اچھے اثرات پر اگر نظر ڈالیں تو دوسری بار چیزیں استعمال کرنے کی وجہ سے اس کو دوبارہ بنا نے میں کم وقت لگتا ہے کیونکہ میٹریل پہلے سے ہی نہ صرف موجود ہو تا ہے لیکن تقریبا تیار ہو چکا ہوتا ہے، ری سائیکلنگ کا عمل بائیو گیس بنا سکتا ہے جیسے کا روں اور بسوں میں ایندھن( فیول) کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یورپ میں ڈیپوزٹ (جمع) کا بھی ایک خاص نظام ہے جو لوگوں کو ری سائیکلنگ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے ، مثال کے طور پر جب آپ سوفٹ ڈرنک خریدتے ہیں تو اس کی اضافی ادایئگی کرتے ہیں اور جب آپ ری سائیکل کرتے ہیں تو آپ کو وہ اضافی رقم واپس مل جا تی ہے جو آ پ نے اداکی تھی۔ لوگوں کو ری سائیکل کرنے کی تر غیب دینے کا یہ ایک اچھا طر یقہ ہے، اپنے گھروں میں درست طریقے سے ری سائیکل کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر سویڈن میں لوگ گھر میں گتے، پلاسٹک ،شیشہ، دھاتیں اور باقی کچرے کو پھینکنے سے پہلے الگ کرتے ہیں یہاں تک کہ کپڑے اور جوتوں کو بھی ری سائیکل کیا جا تاہے تاکہ نیا مواد بنایا جا سکے یا پھر اس کی تجدید کی جاسکے اور غریب ممالک کو بھیجا ہا ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیا جا سکے۔سویڈن میں اس وقت سب کام زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ کاغذ کا استعمال کم ہو سکے، یہ نہ صرف جنگلات بچانے کا بلکہ گلوبل و ارمنگ کو کم کرنے کا بھی طر یقہ کا ر ہے۔فضائی آلودگی پاکستان کے بڑے شہروں میں بڑھتا ہوا ماحولیاتی مسئلہ ہے، کراچی کی شہری فضائی آلودگی دنیا میں سب سے زیادہ سنگین ہے اور یہ صحت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے، جو لوگ زیادہ فضائی آلودگی والے علاقوں میں رہتے ہیں ان میں پھیپھڑوں کے کینسر سے مرنے کا خطرہ کم آلودہ علاقوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں20 فیصد زیادہ ہو تا ہے۔نئے مکانات اور عمارتیں بنانے کیلئے لئے سویڈن میں جو مواد استعمال ہو تا ہے وہ ماحولیاتی طور پر اچھا ہے۔گریٹا ٹنبرگ سویڈن کی معروف ماہر موحولیات ہے جو بہتر ماحول کی طرف توجہ دلانے کے موضوع پر اکثر بات کرتی ہیں ،ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانے اور ری سائیکل کرنا ہے ،یہ گریٹا کا مقصد مختلف احتجاج کے ذریعے سے بیان ہوتا ہے، جس کا ایک منفی پہلو احتجاج کی وجہ سے سویڈن کی سڑکوں کا بند ہو نا ہے۔ہر فرد کا فرض ہے کہ کچرا سڑکوں پر نہ پھینکیں،لیکن پاکستان میں یہ سوچ عام نہیں ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ یہ شکوہ تو کرتے ہیں کہ گندگی بہت ہے لیکن جدھر گند کچرا پڑاہوتا ہے پھر ادھر ہی پھینک دیتے ہیں،حکومت کو آلودگی کے خاتمے کے لئے عوام کو آگاہی دینے کے لئے ان کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہے۔مثال کے طور پر ایچ ایم کپڑے کا بزنس استعمال ہوئے کپڑے واپس لینے پر اک رقم گفٹ کارڈ کی صورت میں گاہک کو واپس کرتا ہے جو ایچ ایم کی دکان میں استعمال کی جا سکتی ہے۔سویڈن میں پانی کم استعمال کرنے پر بھی بہت توجہ دی جا تی ہے، عوام کو حکومت پانی کم استعمال کرنے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے مختلف طریقہ کار
استعمال کرتی ہے جیسے کے گھروں میں بارش تک کے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے پر حکومت آپ کو ایک معقول رقم دیتی ہے۔ مثلا کے طور پر بارش کا پانی بچا کر دوبارہ گرمی کے دن اپنی گھاس یا پھولوں کو پانی دینے سے(اپنے) پانی کا استعمال کم ہو تا ہے۔دنیا بھر
میں ایک بلین سے زیادہ افراد کو پینے کیلئے صاف پانی نہیں ملتا اور گندا پانی پینے کے نتیجے میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار لو گ مرتے ہیں۔سایئکلنگ یورپ میں عام ہے اور تھوڑے فاصلے کے سفر کیلئے گاڑی کا استعمال کم کرنے کیلئے کرائے کی سایئکلوں کی سہولت ڈنمارک اور سویڈن میں ہر شہر میں موجود ہے۔یورپ میں فوڈ اٹھارٹی صحت اور موسمیات کے لئے سفارش کرتی ہے کہ ہفتے میں بڑا گوشت500 گرام سے زیادہ نہ کھائیں،گوشت جن فیکٹریوں اور فارمز میں تیار کیا جاتا ہے ان کی وجہ سے دنیا پر بہت برا اثرپڑتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق سمندر میں جانے والے پلاسٹک مچھلیوں کی خوراک بننے کے بعد فوڈ چین کے ذریعے انسانوں تک پہنچ جا تا ہے۔ ان کے مطابق پلاسٹک کے ٹکڑوں سے کیڑے اور زہریلی جڑی بوٹیا چپکی رہ جاتی ہیں جو کینسر او ر دوسرے امراض کا باعث بنتا ہے۔ آلودگی سے دھرتی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور ہم انسانوں کو اسے ہونے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہے۔ اگلی نسلوں کے لیے بہتری لانے کی بات پاکستان میں اکثرکی جاتی ہے، آلودگی نہ کے صرف دنیا کے لیے بلکے آنے والی نسلوں کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔آخر میں اپنا کالم اس نظم کے ساتھ ختم کررہی ہوں ۔
محبت میں پروا اگر ہے ہوتی تو پھر
اس دنیا سےغفلت ہم کیے بیٹھے ہیں
فاصلے درمیاں ہمارے ہیں تو کیا ہے
آسماں میں کچھ ستارے ہیں ابھی بھی
وہ سمندر جو سمندر ہی نہ اب رہا ہے
ڈھونڈتے ہم خزانے اسی میں ہیں سبھی
محبت میں پروا اگر ہے ہوتی تو پھر
اس دنیا سےغفلت ہم کیے بیٹھے ہیں

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes