فنونِ لطیفہ، روایات کا پاسباں (بوریوالا میں ایک یادگار کی کھوج )

Published on December 4, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 114)      No Comments

تحریر ۔۔۔آمنہ منظور (بوریوالا)
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا !
( علامہ اقبال )
فنونِ لطیفہ محض جمالیاتی اور تخلیقی اظہار کا ذریعہ نہیں یہ انسانی زندگی ، رویوں ، معاشرے اور ثقافت میں تبدیلی کا بھی محرک ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تاریخ و ثقافت کو محفوظ رکھنے اور اسے نسل در نسل منتقل کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔فنونِ لطیفہ میں ادب، ناول، افسانہ، کالم، موسیقی، رقص، ٹھیٹر، ڈرامہ، فلم، سنگ تراشی، مصوری، خطاطی ، مجسمہ سازی، دستکاری وغیرہ شامل ہیں۔فنونِ لطیفہ کی یہ تمام اقسام تہذیبی ارتقا کا ذریعہ ہیں۔ہم تک گزشتہ تہذیبوں کی تاریخ فنونِ لطیفہ کے وسیلے سے ہی پہنچی ہے اور آئندہ نسلوں تک بھی یونہی پہنچے گی۔ فنونِ لطیفہ کو محض لطیفہ بنا لینے یا سمجھ لینے والا معاشرہ تہذیبی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔تاریخ اور حقائق کو محفوظ کرنا اور نسل در نسل منتقل کرنا ، ناسٹیلجیا نہیں ہے بلکہ یہ ارتقائی عمل ہے۔ماضی کے دریچوں میں چھپی تہذیبیں کہیں ہمارے لیے عبرت کا پیغام لیے نظر آتی ہیں تو کہیں ہمیں عزم و ہمت کی نظیر پیش کرتی ہیں۔جو آپ نے آج سیکھا ہے وہ کل کے لیے محفوظ رکھیں گے تو ہی کامیابی سے آگے بڑھیں گے ، آج کے تجربات اور اسباق آج ہی بھلا دیں گے تو کل آپ کے لیے دنیا میں آگے بڑھنا ایسا ہی ہوگا جیسے طفلِ ناتواں کا ،چلنا سیکھے بنا ،پہلا قدم رکھنا اور دوسرے ہی قدم پہ میراتھن ریس میں بھاگنا۔میرے اس کالم کا محرک ایک ٹک ٹاک ویڈیو ہے جس میں بورے والا لاری اڈا میں نصب یادگار جس پر ” سٹی آف ایجوکیشن “(شہرِ تعلیم) لکھا گیا ہے اور ہاتھوں میں کتاب لیے دو مجسمے بھی نصب کیے گٸے ہیں ، اس یادگار پہ نوجوان نے ٹک ٹاک ویڈیو بنائی جس کا لبِ لباب کچھ یوں تھا کہ ”ہم تو نصابی کتب بھی نہیں پڑھ رہے ،یہاں مجسمے کتابیں پڑھ رہے ہیں اور ہمیں تو تعلیم کا شوق نہیں مگر یہاں شہرِ تعلیم لکھا ہوا ہے“ ۔ پھر ایسی ویڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں اور ٹھٹھے اڑائے جاتے ہیں گویا یادگار بنانے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔
بورے والا لاری اڈا چوراہے میں نصب یادگار میں ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے مجسمے ہاتھوں میں کتابیں لیے ایستاذہ ہیں۔یہ مجسمے تعلیم، علم اور صنفی مساوات کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ اس پیغام کو ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم تک رسائی قطع نظر صنف کے ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لڑکی اور لڑکے دونوں کا مجسمہ اس بات کی علامت کے طور پہ بنایا گیا ہے کہ تعلیم شمولیت کو فروغ دینے اور صنفی دقیانوسی تصورات کو توڑنے کے مساوی مواقع پر زور دیتی ہے۔ ہمارے مذہب اسلام نے بھی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی مساوی سطح پر تعلیم وتربیت پہ زور دیا ہے۔ہمارے پیارے نبی محمدِ مصطفیٰ ﷺ نے عورتوں کی تعلیم کو واضح اہمیت دی اور اس کے پیشِ نظر عورتوں کے لیے الگ وقت متعین کر دیا جس میں خصوصاً عورتوں کو تعلیم دی جاتی اور ان کے سوالات کے جوابات دیے جاتے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ تعلیم پہ مرد اور عورت دونوں کا مساوی حق ہے۔بوریوالا کے لاری اڈا میں نصب یہ یادگار افراد اور معاشرے پر تعلیم کے اثرات کا طاقتور اظہار ہے۔یہ علم کے حصول کے جذبے اور خواندگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور اس یقین کو اجاگر کرتا ہے کہ تعلیم لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے ترقی اور بااختیار بنانے کا کلیدی محرک ہے۔بوریوالا میں یہ یادگار اس لیے نصب کی گئی ہے کہ یہاں مرد اور عورت کی مساوی تعلیم پہ زور دیا جاتا ہے اور یہی وہ روایت ہے جو اس کو منفرد بناتی ہے۔بوریوالا ” شہرِ تعلیم “ کے نام سے مشہور اس لیے ہے کہ یہاں خواندگی کی شرح باقی شہروں کی نسبت بہتر ہے اور یہاں آبادی کے لحاظ سے تعلیمی اداروں کی تعداد بھی اس کی شہرت کی وجہ ہے۔یہاں کے باسیوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے ۔
بوریوالا کی اس شہرت پہ ایک مرتبہ کسی نے طنز کیا تھا کہ یہاں ” تعلیم“ کم اور ”تعلیمی ادارے “ زیادہ ہیں تو اس کا نام ” شہرِ تعلیم “ کی بجائے ” تعلیمی اداروں کا شہر / سٹی آف ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹس “ ہونا چاہیے۔ بوریوالا کے باسیو ! اپنی شناخت ، روایات اور تہذیب کو فخریہ پیش کریں ورنہ ہماری شناخت مسخ ہو جائے گی۔
یہ ذمہ داری مجھ سمیت تمام صاحبِ علم و فہم پہ لاگو ہوتی ہے کہ وہ دیدۂ بینا وا کریں اور نوجوان نسل کو اپنی تہذیب سے آگاہ کریں۔ اُنھیں بتایا جائے کہ وہ کس قدر عظیم تہذیب اور روایات کے امین ہیں ۔
میری شناخت ، میرا تعارف ، بوریوالا (شہرِتعلیم و کھیل) کے نام سے مکمل ہوتا ہے جس پہ مجھے فخر ہے اور میں اس کی شناخت و تہذیب کی امین بھی ہوں اور رہوں گی۔ ان شاء اللہ !

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题