والدین سے اظہار محبت ، کسی وقت کامحتاج نہیں

Published on June 27, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 503)      No Comments

Rana Ismail
تحریر ۔۔۔رانا محمد اسماعیل گگو منڈی
اس دنیا میں انسان بہت سے لوگوں اور رشتوں سے منسلک ہوتا ہے ۔جنہیں وہ بہت عزیز رکھتا ہے ۔ہر رشتے کی اسکی زندگی میں اپنی ایک خاص اہمیت اور جگہ ہوتی ہے ۔مگر ان رشتوں میں سب سے خوبصورت ،اور قیمتی رشتہ،،ماں باپ.، کا ہے جو اسے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔اور اس کی خاطر ہر طرح کے مصائب والام برداشت کرتے ہیں ۔جو اس کی پرورش نہایت پیار سے کرتے ہیں ،بالکل کسی گلاب کے باغبان کی طرح۔ماں باپ کی اپنی اولاد کے لئے محبت انتہائی مخلص اور پاکیزہ ہوتی ہے ،جس میں کوئی دکھاؤا،کوئی غرض اور لالچ نہیں ہوتی ۔جس کو ناپنے کے لئے کوئی آج تک کوئی پیمانہ نہیں بنا اور نہ کبھی بن سکے گا۔یہ وہ رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔دنیا کا کوئی انسان یا رشتہ ان کی طرح بے ریا محبت نہیں کر سکتا۔،۔ایک ماں کی محبت تو بلاشبہ ایک عظیم حقیقت ہے اور ہم اکثر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن اکثر اپنے والد سے اظہار کرنا بھول جاتے ہیں اور کبھی جھجک کی وجہ سے چاہ کر بھی نہیں کر پاتے کیونکہ باپ کی شخصیت میں محبت کے ساتھ ساتھ رعب ودبدبہ بھی ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے ہم اپنے جذبات کے اظہار کے لئے ماں کا انتخاب کرتے ہیں ۔اس سب کے باوجود ہم باپ کی محبت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔باپ بھی اپنے بچوں سے کم محبت نہیں کرتا اگر ماں محبت کی علامت ہے تو باپ سایہ دار شجر ہے ۔اولاد کی پرورش میں باپ کا بھی بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔وہ اپنی اولاد کی خاطر ہر طرح کی قربانی دیتا ہے ،اپنی خواہشات اور خوشی کو مقدم جانتا ہے ۔خود زمانے کے سردو گرم جھیلتا اور سخت محنت کرتا ہے ،مگر اپنی اولاد کا تحفظ کسی مضبوط سائبان کی طرح کرتا ہے ۔اور اسے دنیا کی ہر خوشی اور آلائش دینے کی پوری کوشش کرتا ہے۔باپ کے دل میں اولاد کی محبت کا من جانب اللہ ہے۔جو قدرت نے اسے ودیعت کی ہے۔جس طرح برگدکا بیج خشخاش کے دانے سے بھی ہوتا ہے تو ایک مضبوط اور تنا ور درخت بنتا ہے اسی طرح ایک باپ بھی جب اپنی خواہشات ،اپنی اولاد کو مضبوط اور کامیاب بناتا ہے ۔اسی جذبے پیچھے اولاد کی محبت کا جذبہ ہی کار فرما ہوتا ہے،جو اسے خود فنا کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔بوعلی سینا کا قول ہے ۔۔؟۔۔۔۔۔کہ اولاد کی محبت میں ہر باپ حغرت یعقوبؑ ہے۔،، یہ انیسوں صدی کے اوائل کی بات ہے جب امریکہ کے شہر واشنگٹن کے ایک قصبہ ،اسوکن،میں ہنیری جیکسن اسمارٹ نامی ایک شخص رہتا تھا ۔اس کے پانچ بچے تھے چھٹے بچے کی پیدائش پر اس کی بیوی فوت ہوگئی ۔وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اور اس کی وفات کا اسے بہت صدمہ پہنچا ۔اس نے دوسری شادی نہ کی مگر اپنے بچوں کی پرورش نہایت محبت سے کی ۔اس نے بیک وقت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری نبھائی ۔غم و روزگار کے ساتھ ساتھ گھر کا کام کاج کھانا بنانے سے لیکر بچوں کے ہوم ورک تک ہر کام نہایت خوش اسلوبی سے کرتا۔لوگ اس کا مذاق اڑاتے ،اسے پاگل کہتے مگر وہ پرواہ نہیں کرتا تھا۔بچے اس کی خدمات اورمحبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ہنیری جیکسن کی بڑی بیٹی سنور اسمارٹ ڈوڈ نے ایک بار لوگوں کو مڈر ڈئے پر اپنی ماؤں کو تحائف دیتے او ر خراج عقیدت پیش کرتے دیکھا تو اس کے دل میں خیال ابھرا کہ ماؤں کی طرح محبت اور پرورش تو اس کے باپ نے بھی ان کی ،کی ہے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے باپ کی محبتوں اور خدمتوں کے صلے میں ہر سال فادر ڈئے کا اہتمام کیا کرے گی۔1990ء میں پہلی مرتبہ فادرڈئے منایا گیا۔جس میں ڈوڈ کے بہن بھائیوں اور قصبے کے تمام لوگوں نے شرکت کی اور ہنیری کو خراج عقیدت پیش کیا۔اگلے سال پورے قصبے کے تمام لوگوں نے یہ دن جوش وخروش سے منایا اسے مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔یونایئٹڈمیتھیوڈسٹ میں یہ رسم ادا کی گئی اس کے بعد امریکی اخباروں کی زینت بنا اور عوام نے بھی خوب سراہا۔1924ء میں حکومت نے اسے جون کے تیسرے ہفتے میں منانے کا اعلان کیا ۔1966ء میں صدر لندن نے اس دن پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا ۔1967ء میں اسے سرکاری حیثیت حاصل ہو گئی۔گلاب کا پھول اس کا خاص تحفہ قرار پایا ۔ایک سال سے لیکر اس سال تک کے افراد اپنے باپ کو گلاب کا تحفہ دے کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔اب یہ تقریباتمام دنیا بشمول پاکستان میں منایا جاتا ہے ۔اس دن لوگ اپنے اپنے طریقے سے اپنے والد کو اسکے ایثار اور محبت و شفقت کے صلے میں ایک چھوٹا سا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کی عظمت کو سلام کرتے ہیں ۔لیکن یہاں چند امور قابل غور ہیں مثلا یہ کہ آج کی اولاد ماں باپ کے پیار ومحبت اور خدمات کا صلہ دے پا رہی ہے ۔؟کیا آج ہم اپنے والدین کو وہ مقام و مرتبہ،عزت و احترام اور محبت دے پارہے ہیں جن کے وہ مستحق ہیں ؟کیا ہم ان کی خدمت کا حق ادا کر پا رہے ہیں ؟یقیناً،،ناں،،ہے کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں اکثریت کا رویہ ان سوالوں کے جوا ب دیتے ہوئے شرمسار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ۔آج کے اس مشینی دور میں جبکہ ہر شخص ذاتی مفاد کی فکر میں لگا ہوا ہے۔اور انسانی اقدار سے کوسوں دور بیٹھا ہے۔ایسے میں اکثریت کا رویہ یہ ہے کہ لوگ بے حس ہو چکے ہیں ۔جب ایسی محبتوں اور خدمتوں کا صلہ دینے کا وقت آتا ہے تو چپ چاپ کئی کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔وہ والدین جو بچپن میں اپنی اولاد کی خاطر ہر زک اٹھاتے ہیں اس اولاد پر ایک دن بوجھ بن جاتے ہیں اس اولاد کے دل میں ان کیلئے محبت و ہمدردی کا جذبات اور ہمدردی کے دو بول کا قحط پڑ جاتا ہے۔۔۔جنہیں ،،اف،،تک کہنے سے منع کیا گیا ہے آج کی نسل ان سے زبان درازی اور نافرمانی کرتے ذرا برابربھی محسوس نہیں کرتی۔ماں باپ کی خدمت میں ساری عمر بھی گزار دی جائے تو بھی اولاد ان کی خدمتوں کا صلہ نہیں دے سکتی مگر آج عالم یہ ہے کہ وہ اولاد جس کی خوشی کیلئے والدین اپنی زندگیاں رائیگاں کر دیتے ہیں ان کی خدمت عمر تو کیا چند دن کے لئے بھی کرنے کو راضی نہیں۔اس وقت شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج جس مقام پر ان کے والدین ہیں کل وہ ان کے حصہ میں بھی آئے گا او ر شاید وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ہیں جن کی شب و روز کی انتھک محنت نے انہیں پروان چڑھایا اور اس مقام تک پہنچنے کے قابل بنایا جہاں آج وہ ہیں ۔آج اگر وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو یہ ان کی مرہون منت ہے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسی ہستیاں جو ہماری پرورش کرتی ہیں ۔ہمیں محبت سے پروان چڑھاتی ہیں جن کی محبت کا کوئی مول نہیں ان کے لئے کیاصرف ایک دن مختص کر کے اپنی محبت کا اظہار کرنا کافی اور جائز ہے۔؟وہ جو اپنی پوری زندگیاں ہم پر وار دیں ،ہمیں سنوارنے میں گزار دیں ان کے لئے ہمارے پاس محض ایک دن ہے۔؟یقینایہ ناانصافی ہے کہ کوئی ہماری خاطر اپنی تمام زندگی محنت کرتا آیا ہو ہمیں کامیاب بنانے کے لئے خود اپنی ذات کو بھول گیا ،اس کے لئے ہم محض ایک دن اپنی محبت کا اظہار کریں ۔انہیں ان کی خدمتوں کے صلے میں صرف ایک دن عقیدت کے نذرانے پیش کریں۔۔ بے شک ماں باپ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے ہماری زندگی سنواری ہوتی ہیں ان کی خدمت اور محبت ہمارا ہمیشہ کا شیوہ ہونا چاہیے نہ کہ ایک دن کا فرض ۔؟وہ نہایت محبت اور عزت کے مستحق ہیں ۔جہاں ماں باپ کی نا قدری کرنے والے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں وہیں سنور ڈاڈ جیسی مثالیں بھی ملتی ہیں، جووالدین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں ان کی خدمات کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سنوراڈوڈ جیسا جذبہ ہم سب میں ہونا چاہیے ۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ماں باپ کس محبت اور احترام کے حقدار ہیں ۔ہمیں اس شعور کی آگہی باقی لوگوں میں بھی پیدا کرنی چاہیے ،اور صرف یہی نہیں ،اس جذبے کی عملی شکل بھی نظر آنی چاہیے ۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے بھی ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے والدین کی قدر کریں ۔کیونکہ یہ ہمارے دین کا حصہ ہے۔حدیث نبویﷺ ہے۔بد نصیب ہے وہ شخص جو والدین کی خدمت کر کے دعا نہیں لیتا اور لوگوں کو کہتا ہے کہ میرے لئے دعا کرنا،، ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ والدین کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر رکھیں اور اس عملی نمونہ بھی پیش کریں اور دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں۔تب شاید ہم والدین کو تھوڑی خوشی دے سکیں گئے اور ان کی خدمات کو ضائع ہونے سے بچا سکیں گے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Theme