روشن خیالی کے نام پر فیشن یا فحاشی

Published on July 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 1,040)      No Comments

Sardar
ہماری نئی نسل (نوجوان لڑکے اور لڑکیوں )کی اکثریت ہماری اسلامی و مشرقی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔مغربی و غیر ملکی فیشن کی چمک دمک نے ان کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ اچھائی ،برائی،حیا و بے حیائی فیش و فحاشی کے درمیان فرق اور اس کے نقصانات کو بھول گئے ہیں ۔اور ہوا یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی روایات و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی و ہندو تہذیب و تمدن جو کہ فحاشی و بے حیائی کا ہی دوسرا نام ہے کو اپنانے پر مصر ہے اور اسے ترقی،روشن خیالی اورجدید فیشن ،کا نام دے رہی ہے ۔ اور لباس ،گفتار،چال ڈھال فیشن کے نام پر بے حیائی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔شیطان نے ان کی اس بے حیا ثقافت کو روشن خیالی کا نام دے کر خوش نما بنا دیا ہے اور وہ اس کو درست خیال کر رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں اس بے حیائی ،ثقافتی بگاڑ ،فیشن و فحاشی کے پھیلاو کا سب سے بڑا ذمہ دار اور ذریعہ ہمارے ذرائع و ابلاغ ہیں ۔جس میں رسائل و میگزین،اخبارات ،نجی ٹی وی چینل ،فلمیں اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں ۔ہمارے اخبارات و رسائل فلمی ستاروں ،کھلاڑیوں کی نیم عریاں تصاویر خاص زاویوں سے رنگین صفحات پر بڑے اہتمام سے شائع کر کے فحاشی و بے حیائی کے پھیلاو میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے اشتہاربازی کے ذریعے بے حیائی و فحاشی کو پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں ۔اس میں بھی کسی حد تک ذرائع ابلاغ ذمہ دار ہے جس کو صرف پیسے سے غرض ہے بے شک اس سے ملک و قوم کی ثقافت و ٹہذیب و تمدن کا جنازہ نکل جائے۔
نجی چینل ،خبارات و رسائل ،ٹی وی ڈراموں سے اب یہ فیشن یا بے حیائی بازاروں ،گلیوں،گھروں تک جا پہنی ہے اور اسے معاشرے نے برا سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔
اب لباس کی تراش خراش جسمانی نشیب وفراز کو ظاہر کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔اور اسے ترقی ،ماڈرن ازم،جدید دور کی ضرورت اور روشن خیالی قرار دیا گیا ہے۔نوجوان ( لڑکے اور لڑکیاں ) فلم،ٹی وی ڈرامے۔اشتہارات،اخبارات میں فلمی ستاروں کی تصاویر دیکھ کر ان کے جیسا بننے کا سوچتے ہیں ۔اسی لیے اب ہماری نئی نسل کی اکثریت کے رول ماڈل انڈین فلموں کے ہیرو ہیروئین ہوتے ہیں ۔
اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ بہودہ لباس (جس میں آدھے ننگے ہوں ) نہ پہنیں تو وہ ترقی یافتہ ،روشن خیال نہ کہلائیں گے۔بلکہ ان کا شمار اولڈ کلاس میں ہو گا ۔اب تو اس فیشن کی برکت سے نوجوان نسل کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ میل ہے یا فیمیل ۔لڑکا ہے یا لڑکی ۔لڑکیاں پینٹ شرٹ ،جوگر ، بوائے ہیر سٹائل اور بناں چوڑیوں کے کلائیوں رومال نما ڈوپٹا اوڑھے ہوتی ہیں ۔اور لڑکے ہاتھ میں کنگن،بالوں کی پونی بنائے ،کانوں میں بالیاں سجائے ،صنف نازک کو مات دیتے نظر آتے ہیں ۔اور باقاعدگی سے پارلر جاتے ہیں ۔
ایک دور تھا زیادہ پرانا نہیں یہی 80 کی دہائی میں مرد اپنی مردانہ وجاہت،چوڑے سینے،ورزشی جسم ،ملازمت ،اعلی کردار پر فخر کرتے تھے اور اب اپنے زنانہ فیشن پر ۔جدید تحقیق کے مطابق خواتین کی اکثریت ایسے مردوں کو پسند کرتی ہیں جن کے چہروں پر نسوانیت زیادہ ہو یعنی زنانہ چہرے والے مردوں کو کہ ان کا خیال ہے کہ ایسے مرد خواتین کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔دوسری طرف وہ خواتین جو سچ مچ خوبصورت ہوتی ہیں وہ مردانہ چہروں ،مردانہ وجاہت والے مردوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔عورتوں کی اکثریت کے خود کو ننگا کرنے کی دو وجوہ ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کے پاس بے شمار پیسہ آ جائے اور دوسرا اس کے پاس پیسہ بالکل ہی نہ ہو (میں نے اکثریت لکھا ہے اس میں سب شامل نہیں ہیں)مگر ہمارے معاشرے میں احساس کمتری ،نقالی،ذہنی غلامی اس کا سبب ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ زوال کی طرف بڑھتی قوم اپنی ثقافت کو گھٹیا خیال کرنے لگتی ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر نقالی کرتی ہے ۔ہماری نسل کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ جس کی وہ نقالی میں اپنی ثقافت کو چھوڑ چکی ہے وہ مغرب اب مشرقی و اسلامی رسم و رواج اور ثقافت کو اپنا رہا ہے ۔اور ہم کو ان کے عیب میں بھی ہنر نظر آ رہے ہیں ۔فیشن و بے حیائی کی اس اندھی تقلید سے ہم کو خود اپنے آپ اور ملک و قوم کی خاطر اپنی نوجوان نسل کو بھی بچانا ہو گا ۔اس کے لیے ہمارے مذہبی و سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy