نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

Published on July 15, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 699)      No Comments

akh log
حکومت کو کسی سونامی اور انقلاب سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ جنہوں نے انقلاب یا سونامی لانے کے لیے ان کا دست و بازو بننا ہے وہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور مزید ان کا مکو ٹھپنے کے لیے حکومت کا جو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے وہ کافی ہے ۔جس کے ذریعے بجلی کی قیمت میں 25 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا اور یہ کام اسی ماہ کے آخر تک متوقع ہے جس کے بابرکت اثرات پٹرول اور دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ آٹے پر بھی پڑیں گے اب غریب جو پہلے ہی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بچوں کو بھوکا چھوڑ کر کیسے سڑکوں پر آ جائیں گے ۔نہیں آئیں گے۔ویسے اگر آ گے تو ۔۔۔پولیس ہے نا ں۔
ہمارے سیاسی رہنما ء ملک و قوم خاص کر غریب عوام کے انتہائی خیر خواہ اوروفادارہیں دن رات عوام کی بھلائی کس طرح ممکن ہے سوچتے ہیں ان کی اس پریشانی نے راتوں کی نیند لوٹ لی ہے اور دن کے چین چرائے ہیں اس بات میں کسی کو شک کرنے کی اجازت نہیں ہے ویسے بھی شک کر کے عوام کو شیطانی خیالات سے خود کو بچانا چاہیے کیونکہ شک ہی شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ ہمارے سبھی رہنما ہم عوام سے مخلص ہیں جس کو یقین نہ آئے وہ ہمارے کسی بھی سیاسی رہنما (اہل اقتدار)کی تقریر سن سکتا ہے جسے سن کر اسے یقین ہو جائے گا کہ غربت،مہنگائی،بیروزگاری،لوڈشیڈنگ ،کرپشن اورناانصافی کا خاتمہ ہونے ہی والا ہے ۔زیادہ غور سے سننے پر اس حقیقت کا انکشاف بھی ہو گا کہ ان پر کرپشن وغیرہ کے جو مخالفین الزامات لگاتے رہتے ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔بلکہ اسے بقول پروین شاکر یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گئی سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے اس کو تو عوام کا غم چین سے جینے نہیں دیتا۔وہ بھی اقتدار میں آکر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ،یقین ہے کہ عوام جلد ان کی آواز پر کان دھرے گی اور ان کو اپنی خدمت کا موقع دے گی۔اپوزیشن اس کے لیے سب اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تشکیل دے رہی ہے اور پر امید ہے امید پر دنیا قائم ہے ۔اس لیے عوام کو اچھے دن آنے کی امید قائم رکھنی چاہیے ۔دوسری بات یہ کہ مایوسی کفر تک لے جاتی ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے بقول شاعر
ؔ ؔ ؔ اچھے دن بھی آئیں گے کبھی ۔۔۔زندگی بہت پڑی ہے ابھی
ہمارے لیڈروں کی اکثریت نے پاکستانی عوام کے لیے بیروز گاری کا حل یہ نکالاہے کہانہوں نے بیرون ملک فیکٹریاں لگائی ہیں جو بے روزگاری سے تنگ ہیں وہاں جا کر ملازمت کر سکتے ہیں کیوں کہ وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ چونکہ فیکڑیوں سے آلودگی پھیلتی ہے جس کی پاکستان میں پہلے ہی کمی نہیں ہے۔عوام غیر ملکی چیزوں کو زیادہ پسند کرتی ہے ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کرہی عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے بیرون ملک فیکٹریاں لگائی ہیں ۔
ہمارے میڈیا اور سیاسی رہنماوں نے عوام کو تفریح مہیا کرنے کے لیے ملک میں مقابلہ کی سیاست کو فروغ دیا ہے کیوں کہ عوام مقابلہ دیکھنے کی شوقین رہی ہے اور ہمارے سیاسی رہنما ان کو یہ میڈیا کے تعاون سے دیکھاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر الزام لگا لگا کر خود کو ننگا کر چکے ہیں مگر عوام کی نفسیات جو کہ سلطان راہی مرحوم اور شان صاحب کی فلمیں جن میں بڑھک کلچر دیکھایا جاتا ہے کو پسند کرتے ہیں ۔عوام اسے ہی ہیرو خیال کرتے ہیں جو جتنی زیادہ بلند آواز سے بات کرتا ہے( حالانکہ قرآن میں اللہ سبحان و تعالی نے سب سے بری آوازبلند آواز کو ہی کہا ہے) ، جسے بات کرنے کا شعور نہ ہو، جو صرف اپنی کہے ،جس پر دلیل اثر نہ کرے ،جو عام بات بھی بڑھک مار کر کرے وغیرہ وغیرہ اور یہ تمام خصوصیات ما شا اللہ ہمارے مذہبی و سیاسی رہنماوں میں موجود ہیں جس کو شک ہو وہ کسی بھی رہنما چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہو اس کی تقریر سن سکتا ہے ،جس میں جوش خطابت میں نہ جانے کیا کچھ کہہ دیا جاتا ہے ۔عوام امیدیں لگا لیتی ہے بعد میں پانچ سال پورے ہونے سے پہلے ہی ناامید ہو جاتی ہے ۔پاکستان سے غربت کیسے کم ہو سکتی یاختم ہو سکتی ہے کہ اس کا کوئی نام لینے والا نہ رہے اس پر ہمارے ملک کے رہنماوں کے پاس بہت سارے فارمولے ہیں جن میں سے کچھ پر سابقہ حکومت نے عمل کیا تھا اور چند ایک پر اس سے بھی سابقہ نے جو باقی رہ گئے ہیں اس پر موجودہ حکمران عمل کر رہے ہیں جن پر عمل کرنے سے بہت جلد غریب پاکستان سے ختم ہو جائیں گے ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog