دو راستے

Published on August 4, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 418)      No Comments

Shahidکچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں کے درمیان بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کیا ہیں ،اتنی ہی عجیب بات یہ بھی ہے کہ کائنات کی کوئی جنس ایسی نہیں جو اپنی جنس کے افراد سے وہ مطالبہ کر رہی ہو جو انسان اپنے ہم جنس سے کر رہا ہے،قانون فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کیلئے اگر غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے،قدرت نے انسان کو ذہانت اور قوت عطا کی ہے لیکن انسان نے ہمیشہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور دنیا میں غیر معمولی روش اختیار کر رکھی ہے ،یہ انسان ہی ہے جو فوجیں اور غلام بناتا ہے اور اپنی اسی قوت کے غرور میں اپنے ہم جنس پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے تشدد کرتا اور موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، جب سے انسان زمین پر موجود ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی جتنی انسانوں نے لی ہے ،آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان ہی انسان کا دشمن ہے اور اسے ہر قدم پر نیچا دکھانا چاہتا ہے اور یہی کوشش رہتی ہے کہ اسے اپنا غلام بنائے ، ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں قانون سے خوفزدہ نہیں ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے اسے توڑتا ہے بالخصوس ذرائع اور وسائل سے لیس افراد کیلئے قانون یا انصاف جیسے الفاظ بے معنی اور بے وقعت ہیں ۔
پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے بد امنی ، ناانصانی ،لاقانونیت اور بے چینی کا شکار ہے ایک انجانی سی نفرت اور تشدد کی آگ ہر سو پھیلی ہے، سب سے بڑھ کر حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے مفادات کے چکر میں عوام میں مزید نفرت اور تعصب کو جانے انجانے انداز میں پروان چڑھا رہے ہیں،انہیں پاکستان کی نہیں بلکہ اپنے صوبوں ، علاقوں اور جائے پیدائش کی ترقی اور خوشحالی کی فکر ہے،انسانیت ،قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر غور و فکر کیلئے کوئی تیار نہیں ۔
ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کیلئے نہ صرف مستحکم ،پائیدار،اور غیر جانبدار اصول و ضوابط ضروری ہیں بلکہ نظام مملکت چلانے والے افراد کا مخلص ، اصول پسند ، باکردار ، ایماندار،با اخلاق،ذمہ دار اور محب وطن ہونا بھی لازمی ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں اپوزیشن پارٹی کیوں ہمیشہ فرینڈلی رہتی ہے ان کی خاموشی اس بات کا کھلم کھلا ثبوت ہے کہ وہ اپنے حصے کا مال بٹورتی ہے اور کان ، آنکھ اور منہ بند رکھتی ہے جبکہ مغربی ممالک میں اپوزیشن پارٹی حکومت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے اس نے حکومت کو نکیل ڈال رکھی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا غیر قانونی بل پاس نہیں ہونے دیا جائے گا جس سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچے۔
کئی بار تحریر کر چکا ہوں تھرڈ کلاس غنڈوں نے اپنے علاقوں سے زبردستی یا حرام مال خرچ کرکے ووٹ حاصل کئے اسمبلی میں سیٹ پانے کے بعد وہ ملک کے کرتا دھرتا بن بیٹھے اور قانون کو پاؤں تلے مسل دیا،ایسے لوگ ملک وقوم کی کیا خدمت کریں گے جن کے لئے قانون ایک طوائف سے بدتر نام کا حامل ہو، جب قانون بنانے والے ہی قانون سے کھلے عام کھلواڑ کریں گے تو کیا عوام قانون کے گن گائے گی؟
آئے دن حکمران اور ان کے کارندے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،حالیہ واقعہ جس میں ایک ایم این اے نے پولیس سٹیشن پر دھاوا بولا قانون کے رکھوالوں کی پٹائی کی اور چند گھنٹوں بعد ضمانت پر رہا ہو گیا،جب ایک حکومتی غنڈہ پولیس سٹیشن میں گھس کر پولیس والوں کی پٹائی کرے گا تو پولیس کا مقصد تو فوت ہو گیا۔کچھ عرصہ قبل پنجاب پولیس نے ایک گیسٹ ہاؤس پر چھاپہ مارا اور جمہوریت کی علمبردار پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ کو دو خواتین کے ساتھ نا قابل اعتراض حالت میں گرفتار کیا وہ اپنے دیگر ساتھوں سمیت رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھا پولیس نے امپورٹڈ شراب بھی قبضے میں لے لی،لیکن فاضل عدالت نے اس رہنما کو صرف تیس ہزار روپے کی ضمانت پر باعزت بری کر دیا، گجرات والے واقعے کے ذمہ دار کو شہر کے بیچ چوراہے پر لاکر اسکے بازو بھی الگ کر دئے جانا چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کی سفاک حرکت کرنے کا سوچ بھی نہ سکے لیکن کون پکڑے گا اس غنڈے کو۔ یہ پولیس؟کون سزا دے گا ایسے رہنماؤں کو جو ہزاروں روپوں کی امپورٹڈ شراب ایک شام میں ہی لنڈھاتے ہیں اور عوام کو پینے کیلئے صاف پانی تک میسر نہیںیہ وکیل یہ جج سزا دلوائیں گے؟ کون لائے گا اس سفاک قصائی کو چوراہے پر؟ یہ حکمران یہ قانون دان یا یہ بکاؤ پولیس ؟ کون کرے گا یہ سب کچھ؟تمام حکمرانوں کے بچے بیرون ملک آعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ملک کے بچے دو وقت کی روٹی کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں ، ریڑھیاں گھسیٹ رہے ہیں اور سائیکلوں کو پنکچر لگا رہے ہیں یا ہوٹلوں میں بیرا گیری کر رہے ہیں۔
حکمرانوں میں سب سے اہم چیز احساس ذمہ داری کا ہونا ہے اقتدار کو اگر اپنی ذاتی ملکیت بنالیں ،عیش و عشرت میں مگن ہو جائیں جائداد اور بینک بیلینس کو وسعت دینے میں لگ جائیں ،عوام اور ان کے مسائل سے بے تعلق ہو جائیں تو عوامی مسائل کون حل کرے گا؟علاوہ ازیں عوامی فلاح و بہبود کیلئے اہل اور باصلاحیت افسران و عملہ کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے ،ریاست میں عوامی تکالیف اور مسائل کی ایک وجہ افسران کی نااہلی بھی ہوتی ہے، کسی بھی فلاحی مملکت میں نااہل ،بد دیانت ،کم ظرف ، بد اخلاق ، رشوت خور اور بد کردار لوگوں کو اس عہدے پر تعینات نہیں کیا جاتا ۔
پاکستان میں کرپشن اور رشوت خوری ایک ناسور کی طرح پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے عوامی دولت نہ صرف ضائع ہو رہی ہے بلکہ عوامی بھلائی کے کاموں میں روکاوٹ بھی پیدا ہو رہی ہے،چپڑاسی سے لے کر حکمران تک اس برائی میں لت پت ہیں،کوئی کام بغیر رشوت یا اثر رسوخ کے پایہ تکمیل نہیں پہنچتا، یہاں یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ۔’’ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے ‘‘ ۔ جب یہ نام نہاد مسلمان اپنے پیغمبر کے فرمان کی نافرمانی کرتے ہیں تو کیوں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ جب قومی خزانہ حکمرانوں کا ذاتی خزانہ بن جائے تو قومی ترقی کیلئے رقم کہاں سے آئے گی؟۔حکمرانوں اور ان کے اہل کاروں کے خاندانوں کو ہر ماہ بونسوں، مراعاتوں ، بخشیشوں ، پلاٹوں سے نوازا جائے گا اور ذاتی سہولیات کے لئے جمہوریت اور عوام کی فلاح و بہبود کا نام دے کر خزانے کو خالی کیا جائے گا تو ترقی کس کی ہو گی عوام کی یا حکمران کی ؟ اربوں ، کھربوں ڈولر جو یہ جمہوریت کے ڈھکن کھا پی گئے ہیں یہ پیسا ملک و قوم کی ترقی پر استعمال کیا گیا ہوتا تو آج خطے کا امیر اور ترقی یافتہ ملک پاکستان ہوتا ۔
کچھ عرصہ قبل ایک خبر نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ کیا ایک سرکاری کلرک بھی اتنا پاور فل ہو سکتا ہے؟ایف بی آر کا ایک کلرک دو ارب روپے کی کرپشن میں ملوث پایا گیا وہ اتنا بااثر ’’ کلرک ‘‘ تھا کہ چئیرمین اور کلکٹر کسٹمز اس کی مرضی سے مقرر ہوتے ایک صوبے سے آزاد حیثیت میں سینٹ کا الیکشن لڑا لیکن ایک ووٹ کی کمی کے باعث سینیٹر بننے سے رہ گیا ،دو ارب روپے کے اس گھپلے میں کئی اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق اگر وہ الیکشن جیت جاتا تو وزیر خزانہ بھی بن جاتا۔ایسے کئی محب وطن (حرام خور) پاکستانی ملک وقوم سے غدار ی کر رہے ہیں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں ،ایسے غلیظ لوگ اثر رسوخ اور ملک و قوم کا پیسہ استعمال کر کے ہر بڑے سے بڑے جرم و گناہ سے باعزت بری ہو جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان غداروں کے بھی باپ ہیں اور ایک مجر م سے رشوت لیتے ہیں ،’’ وکلاء یا جج ‘‘ ۔جب ملک میں وکیل اور جج مخلص اور ایماندار نہیں ہو نگے تو ایک ریڑھی والا یا مزدور اپنے اوپر ہوئے ظلم کی فریاد کس کے پاس لے کر جائے گا ؟۔انسان کو صرف چھری چاقو یا گولی سے ہی نہیں قتل کیا جاتا اسے سلو پوائیزن سے بھی مارا جا سکتا ہے جیسے کہ ابتدا میں عرض کیا ہے انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے کبھی چنگیز و ہلاکو کی صورت میں قتل و غارت کا مظاہرہ کیا کبھی نادر شاہ بن کر خون کی ندیاں بہاتا رہا اور کبھی انسان کی ہی بھڑکائی ہوئی عالمی و علاقائی جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کے تمغات پاتا رہا،اور کبھی پاکستان جیسے ملک میں موروثی غنڈے ،ڈکیت ،لٹیرے اپنی طاقت کے زور سے قوم پر مسلط ہو گئے جنہوں نے انسان کی بنیادی ضروریات چھین کر سلو پوائیزن سے سلو موشن میں انہیں موت کی نیند سلا دیا ، پاکستان کو کوئی باہر والا ختم نہیں کر سکتا اسے ہم سب خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں، حکمران اور عوام میں اچھی پارٹنر شپ جاری و ساری ہے ،حکمرانوں نے قوم کو بھوکا ننگا خونخوار حیوان بنا دیا ہے اور قوم اس حالت میں بھی الف ، ب ، پ ،جیم ،ق، ن کے قصیدے اور پہاڑے پڑھتے پڑھتے جرائم اور خود کشیاں کر رہی ہے۔یہاں یہ تحریر کرنا بھی لازمی ہے کہ پاکستان آبادی کے نصف حصے سے زیادہ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے ،پانی، بجلی، علاج، تعلیم عام لوگوں کو میسر نہیں اور حکمران سیر سپاٹے کر رہے ہیں،معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے،فیکٹریاں کارخانے روز بروز بند ہو رہے ہیں لاکھوں لوگ بے روزگا ر ہیں ایسے میں غریب عوام کے لئے دو ہی راستے بچے ہیں جرائم یا خود کشی۔
دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو کسی فرد کو برائی سے دور رکھے اور نیکی کرنے پر ابھارے،دنیا وی سزاؤں کے باوجود ریاست میں جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ذمہ دار صرف اور صرف حکمران ہیں،حکمران اگر صحیع معنوں میں حکمران بنیں اور تعمیری و ترقیاتی سوچ پیدا کریں تو ہر طرف چین وسکون، انصاف، برابری اور ترقی ہو گی نہ کسی پر ظلم ہو گا نہ کوئی تشدد کرے گا نہ کسی کا استحصال ہو گا ، نہ کسی کے وسائل پر قبضہ کیا جائے گا ، حکومت کو چاہئے کہ اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آئے ،کتنی شرم کا مقام ہے کہ انہیں چھینک بھی آتی ہے تو اربوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک علاج کروانے جاتے ہیں جبکہ ملک میں صحت اور اسپتالوں کا نظام اتنا گھٹیا اور افسوسناک ہے کہ ایک حیوان بھی اپنی سانس روک لے اور اٹھارہ کروڑ لوگ انہی بے ایمان حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے زندگی کی بازی اسپتال نما غلاظت میں ہار جاتے ہیں۔
ایسے حالات میں صحت مند افراد کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اللہ انہیں کسی بیماری میں مبتلا نہ کرے اور شریف انسان کی تو ہمیشہ سے یہی دعا رہی ہے کہ پولیس ،وکیل اور کچہری سے واسطہ نہ پڑے ۔اب عوام جائے تو جائے کہاں ؟ زندہ رہنا چاہتے ہیں لیکن سڑکوں پر اور اسپتالوں میں مار دیا جاتا ہے ،بے گناہ افراد کو پولیس نچوڑ تی ہے اگرکوئی قسمت کا دھنی بچ نکلا تو وکلاء،جج اور عدالتیں اس کی پیٹھ پر اتنے کیل ٹھوکتے ہیں کہ وہ نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے ان حالات میں اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں ،مجرم بنے یا خود کشی کرے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes