آزادی کی قدر

Published on August 7, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 544)      No Comments

akh log
ایک وقت تھا کہ بر صغیر پاک و ہند پر مسلمان حکمران تھے، مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد تک برصغیر پاک وہند پر حکمرانی کی لیکن پھر ان کی گرفت کمزور ہونی شروع ہو گئی۔ اس کی وجہ اپنے مقصد سے ہٹ جانا ،آپس میں نا اتفاقی ،دین اسلام سے دوری۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد برسراقتدار آنے والے مغل حکمران برائے نام تھے۔ جو نااہل تھے ،آپس میں اقتدار کے لیے جنگیں کرتے رہے بہا در شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ تھا جس نے خود سنبھلنے اور سلطنت کی گرتی ہوئی دیواروں کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگرجب چراغ کے اندر سے تیل ہی ختم ہو جائے تو گل ہو جانا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ پھر وہ ہوا کے کسی جھونکے کے ہاتھوں اپنی متاع زندگی لٹا بیٹھتا ہے۔ یہی کیفیت بہادر شاہ ظفر پر گزری۔مسلمانوں کے اندر غداروں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ،شروع سے ہی مسلمانوں کو غیروں سے زیادہ اپنوں نے نقصان پہنچایا۔نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے ہاتھوں قید ہوا۔ رنگون میں کسمپرسی کے عالم میں ابدی نیند سو گیا۔
اس کے بعد100 سال تک برصغیر کا مسلمان بے کسی ،مجبوری اور لڑکھڑاہٹ کا شکار رہا اس پر زندگی مشکل کر دی گی اور موت آسان ۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے شہنشاہی کے فوراً بعد غلامی کو نعمت سمجھ کر قبول کر لیا تھا وہ غلامی کے اس جال میں پھنس تو گیا تھا مگر مسلسل تڑپتا رہا اور پھر اس کی ہمت اور جدوجہد کا امتحان شروع ہوا کہ وہ اس غلامی کی قید سے آزادی کیسے حاصل کرے۔ آزادی کے لئے مسلمانوں کی یہ تڑپ وقتی اور عارضی نہ تھی بلکہ دائمی اور ابدی تھی۔ برصغیر میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکوں کی تہہ میں یہی تڑپ کار فرما تھی۔ تحریکیں ابھرتی رہیں،جبرواستبدار سے ٹکراتی رہیں،بے دم ہوتی رہیں مگر کسی لمحے بھی تڑپ و سوز اور بے چینی کی کیفیت ختم نہیں ہوئی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت سے لے کر علماء کرام کی جدوجہد بہادری تک 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی سے لے کر 1947 ء کی کامیاب سعی ء آزادی تک تاریخ کے کتنے ہی باب ہیں جو لہو سے رنگین و آہوں سے معمور ولولوں سے گلزار اور قربانیوں سے لبریز ہیں۔ یہ آزادی ہمیں یو نہی نہیں مل گئی اور نہ ہی آزادی کوئی ایسی نعمت ہے جو بغیر کوشش کے مل جاتی ہے، نہ ہی اسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتا ہے بلکہ اس کے لئے کتنے ہی دلوں کو تڑپنا ،کتنے ہی آنسوؤں کو بہنا اور کتنے ہی سروں کو کٹنا پڑتاہے۔ تب کہیں یہ نعمت ملتی ہے یہی بھولا ہوا سبق ہماری نوجوان نسل کو یاد کروانا اس یوم آزادی کا مقصد ہے ۔یہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے، اس کے مقابلے میں زندگی کی ہر نعمت ،ہیج ہے کسی بھی چیز کی قدر اس کے کھو جانے سے ہوتی ہے۔
پاکستان آخر کار وجود میں آگیا ، اس کے آئین کا سنگ بنیاد \” قرارداد پاکستان \” ہے۔ یہ قرارداد 23مارچ1940ء کو اس دور کے منٹو پارک کے میدان میں قائد اعظم کی صدارت میں منظور ہوئی۔ یوں ہندوستان کے مسلمانوں کی منزل کا تعین ہوا۔ منزل سامنے نہ ہو تو کوئی راستہ بھی انسان کو مقصد کا سکون عطا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ \”قرارداد پاکستان \” کی منظوری کے سات سال کے اندر دنیا کے نقشے پر ایک ایسی سلطنت ابھری جس کی بنیادیں نظریہ اسلام پر قائم تھیں۔ پاکستان کو قائم ہوئے 67 سال ہو گئے ہیں اور جس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا وہ مقصد اب موجودہ نسل بھول چکی ہے ۔آج ہم ایک بے مقصد قوم بن چکے ہیں ۔
کہنے کو پاکستان آزاد ملک بن گیا مگر اپنے قیام کے تھوڑے دنوں ہی بعد کرپٹ حکمرانوں کے شکنجے میں پھنس گیا اور آزاد ہو کو بھی آزاد نہ ہوا آج ہمارے ملک میں وہ آئین(اسلامی شریعت) نافذ نہ ہو سکا جس کے مقصد کو سامنے رکھ کر جہدوجہد کی گی تھی ملک میں ایسے حکمران اقتدار میں آئے جن میں سے اکثریت امریکہ و برطانیہ کی ذہنی غلام تھی اور آج جس مقصد کے لیے قیام پاکستا ن کے قیام کے لیے ہمارے بزروگوں نے جان ،مال ،عزت کی قربانیاں دیں تھیں وہ مقصد ہم بھول گئے ۔ہر سال یوم آزادی پر ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں مگر صرف ایک دن کے لیے اور پھر اس کو بھول جاتے ہیں اسی وجہ سے ترقی معکوس کا سفر جاری ہے ۔کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے ،بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو چکا ہے ،بلوچستان میں حالات ویسے بنتے جا رہے ہیں(خاکم بدہن) جیسے کھبی بنگلہ دیش کو الگ کرنے کا سبب بنے ،وزیرستان کا حال سب کے سامنے ہے ۔
اگر ہم آزادی کی تاریخ کافخر بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار و عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ کیونکہ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ۔آیئے ہم سب عہد کریں کہ ہم پاکستان میں شریعت کے نفاذ ،،فرقہ پرستی کے خاتمہ ،اور پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے جہدوجہد کریں گے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes