ڈپلومیسی کاعروج

Published on August 8, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 395)      No Comments

yasen_of_Graphic1
ہرشخص جو وطن سے محبت رکھتا ہے وہ موجودہ صورتحال سے پریشان ہے سب کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ اب کیا ہو گا ؟اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے سب اگر ،مگر،لیکن،ایسا ہوا تو یہ ہو گا ورنہ ایسا ہو جائے گا وغیرہ جواب دے رہے ہیں ۔ایسے میں ہم کھبی ایک کو دیکھتے ہیں کھبی دوسرے کو ۔ عمران خان نے 14 اگست کو آزادی مارچ کا اعلان کر کے ملکی سیاست کا ماحول گرم کر دیا ہے اور بہت سے تجزیہ نگاروں،عوام،حکومت وغیرہ کو حیران بھی ۔وہ کہتے ہیں( کہ حکومت جانے تک اسلام آباد میں دھرنا ہو گا) ۔عمران کے پاس ایسا کون سا ترپ کا پتہ ہے جو اس نے اپنی ساری سیاسی ساکھ ہی داو پر لگا دی ہے وہ اتنے بے وقوف تو نہیں ہیں۔اس کو کس کی یقین دہانی ہے کچھ تو ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ ،امریکہ،آرمی پاکستان کے اقتدار کا فیصلہ کرتے ہیں اب تک تو ایسا ہی تھا اب سعودی عرب کو بھی اس میں شامل کر لیں (ویسے بھی ہم نظریہ شازش کے پیروکار ہیں )۔فرض کرو عمران ڈی چوک میں جلسہ کرتے ہیں دو دن چار دن دس دن وہاں رہتے ہیں (جو کہ ممکن تو نہیں ہے )اور حکومت ان کو لفٹ ہی نہیں کراتی(یہ بھی ممکن نہیں ہے) نہ ہی استعفے دیے جاتے ہیں نہ ہی دیگر کوئی مطالبہ مانا جاتا ہے تو تحریک انصاف کیا کریں گی؟ اس سوال سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کیا وہ پارلمے مینٹ پر قبضہ کر لے گی پھر کیا ہو گا فوج یا انارکی جو خانہ جنگی کی طرف لے جائے گی ۔یا پھر اسلام آباد سے ناکام واپسی ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ سب نورا کشتی ہے تحریک انصاف بھی پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن کی طرح تیسری قوت بن چکی ہے ۔ان کے رنگ میں ہی رنگی گی ہے جن کے خلاف تبدیلی لانی تھی۔ایک بات استعفوں کی بھی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے پارٹی میں اختلاف ہو سکتا ہے ،اگر دے بھی دیں تو بھی حکومت نہ جائے گی ضمنی الیکشن ہو جائیں گے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری اس دوران کیا فیصلہ کرتے ہیں یا ان پر تھوپا جاتا ہے اگر وہ عمران خان کے ساتھ مل گے تب ن لیگ کے لیے اصل پریشانی بن جائے گئی ۔ اس بارے میں طاہر القادری اور عمران خان نے اشارہ بھی دیا ہے ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں ،حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے ،انہوں نے ملک کو ذاتی جاگیر بنا رکھا ہے ، اس نظام انتخاب میں رہتے ہوئے تبدیلی ممکن نہیں اس نظام کو ہی بدلنا ہو گا ۔پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے قانون و آئین ہے تو اس عمل نہیں ہے آدھا آئین معطل پڑا ہے ،وغیرہ اکیلے ڈاکٹر طاہر القادری کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے اس کے لیے کوئی محنت نہیں کی جتنا بڑا وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان کی ڈیمانڈ زہیں اس حساب سے بہت کم عوام میں نکلے ہیں ،وہ اگر پورے پاکستان میں جلسے کرتے اور چھ سات ماہ عوام کو شعور و منشور دیتے تو شائدممکن تھا ۔ ان کو یہ بھی علم نہیں کہ انقلاب کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ۔اسے زبردستی لانا پڑتا ہے ، جوقربانی کے بناں تو ممکن نہیں۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ہو جانا چاہیے کہ حکومت طشتری میں رکھ کر نہ ملے گی ۔ طاہر القادری اگر ضد پر قائم رہے تو ایک اور سانحہ ہو جائے گا ۔کیونکہ وزیراعظم کا استعفی دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہاں طاہر القادری کی گرفتاری بھی ممکن ہے کیونکہ ان پر مقدمہ بن گیا ہے ان کو گھر میں نظر بند بھی کیا جا سکتا ہے ۔
سیاسی طوفان کو روکنے اور سیز فائر کے لیے ملک میں ڈپلومیسی عروج پر ہے ۔تمام سیاست دان متحرک ہو چکے ہیں ان کا تعلق جس بھی پارٹی سے ہو ۔لیکن سراج الحق ،الطاف حسین اور سابق صدر آصف زردار ی کا اہم کردار ہو گا کہتے ہیں آخری مرحلے میں معاملات طے پا جائیں گے ۔اس کے لیے سب سے اہم کردار سابق صدر آصف زرداری ادا کریں گے ،جومسلسل حکومت اور تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں اور سب سے قابل سیاست دان بھی ۔فیصلہ یہی ہو گا کہ عمران خان کو باری دے دی جائے گئی وعدے ہوں گے ،اور بس اس سے زائد کیا ممکن ہے مارشل لا ۔سابق صدر آصف علی زرداری کا ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی مسلسل رابطہ ہے کیا پتہ ان کے درمیان بھی کچھ طے پا جائے ۔کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ جمہوریت کو بچایا جائے اور فوج کا مارشل لا لگانے کا کوئی امکان نہیں ہے اب تک سب یہی کہ رہے ہیں ۔وزیر اعظم نے بھی اپنے خیر خواہوں سے مشاورت کر لی ہے اور فیصلہ ہو چکا ہے ۔
پولیس نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا ہے۔ سینکڑوں گرفتار کر لیے ہیں ہمارے علاقے کسووال اور گرد و نواح میں پولیس کے چھاپے عوامی تحریک کے درجنوں کارکنوں کے ساتھ ساتھ غیر متعلقہ افراد کوبھی گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے جن میں سے ایک نوجوان محمد عرفان جس کا منھاج القرآن عوامی تحریک یا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ن لیگ کا ووٹر ہے جس کو رات دو بجے سوتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا اور اس کو قمیض اور جوتے پہننے کی مہلت بھی نہ دی گئی ۔عرفان کو جو اس وقت ذہنی اذیت ہو گی اس کا کون تصور کر سکتا ہے ۔ایک تو وہ یکسر عوامی تحریک سے لاتعلق فرد ہے دوسرا اس کی بیوی ان دنوں بیمار بھی ہے اور اس کو پولیس نے آدھاننگا گرفتار کیا ہے ۔وہ کس حال میں ہو گا اس بارے سوچ سوچ کر اس کے گھر والے ہلکان ہو رہے ہیں ۔پولیس اور حکمران بے شک کریک ڈاون کریں یا نہ کریں مگر گرفتار کرتے وقت صرف ذمہ داروں کو گرفتار کریں یہ کیا ہوا کہ جو ملا اسے گرفتار کر لیا اور ٹوٹل پورا کر لیا ۔آخر میں دعا ہے اللہ پاکستان کو ہر بحران سے بچائے اور سیاست دانوں کو ملک و قوم کے حق میں فیصلے کرنے کی توفیق دے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Themes