مواصلات شروع سے انسان کی ایک ضرورت رہی ہے پہلے اس کام کے لیے خط دے کر بھیجے جاتے تھے پھر کھڑ سوار دوٹائے جانے لگے ۔
گھڑ سواروں کے ذریعے بہت دور تک پیغامات بھیجے جاتے تھے ۔دور دراز تک پیغامات بھیجے جانے کے لیے دس دس بارہ بارہ میل پر منزلیں بنی ہوتی تھی۔جہاں تازہ دم گھوڑے موجود ہوا کرتے تھے گھڑ سوار خطوط کا تھیلا لے کراگلی منزل کو جاتے اور اسے وہاں کے گھڑ سوار کے حوالے کر دیتے اور واپس لوٹ آتے اگلی منزل کا گھڑ سوار بھی ایسا ہی کرتا ۔اس طریقے سے سینکڑوں میل دوری تک خط پہنچائے جاتے ۔مسلمان حکمرانوں نے اپنے زمانے میں گھڑ سواری کے ذریعے مواصلات کے نظام کو بہت ترقی دی تھی ۔اس کے لیے ایک جداگانہ محکمہ قائم کر دیا تھا ۔بہت زمانے تک مواصلات کا کام کبوتروں سے بھی لیا گیا ۔خط اس کی گردن میں باندھ دیا جاتا تھا اور وہ اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتا اس کے ذریعے سینکڑوں سال تک پیغام رسانی ہوئی ۔بعدمیں یورپ کے حکمرانوں نے بھی پیغام رسانی کے لیے کبوتروں کا استعمال کیا۔جب سائنس کا دور شروع ہوا تو دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ مواصلات میں بھی بڑی ترقی ہوئی۔گذشتہ صدی میں موٹر اور ریل ایجاد ہو گئی ۔اس کے بعد ڈاک بھی اس ذریعے بھیجی جانے لگی انھی برسوں میں ایک ایسا آلہ ایجاد ہو گیا۔ جس نے موٹر اور ریل کی محتاجی ختم کر دی۔کیونکہ اس آلے کے ذریعے دور دور تک پیغام رسانی کی جانے لگی ۔وہ آلہ ٹیلی گرامی کا تھا ۔اور پھر اس کے بعد وائرلیس ایجاد ہو گیا ۔جو کسی تار کو واسطہ بنائے بغیر فضا میں پائی جانے والی ر یڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کے لیے کام آیا ۔وائرلیس جو اس اصول کے لیے کام کرتا ہے اس کے ذریعے پیغام صرف بھیجا نہیں جاتا بلکہ وصول بھی کیا جاتا ہے وائرلیس کو سب سے پہلے بہری جہازوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا ۔اس کی خاطر جگہ جگہ تار گھر قائم کیے گئے اور کسی عام انسان کے لئے استعمال میں لانے کے لیے اس کا ا سے لیکر ے تک حروف کو ہندسوں میں الگ الگ لکھ دیا گیا تا کہ وہ بھی اسے استعمال کر سکے ۔ اور پھر موبائل فون بھی ایجاد ہو گئے اور یہ موبائل فون کو سفر میں کہیں بھی استعمال کیا جاتا ہے اس سے دور دور سے پیغامات مِل جاتے ہیں ۔اور کمپیوٹر کو بھی ایک مواصلات کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔یہ ایک مواصلاتی مشین ہے اس کے ذریعے حساب کتاب یا کسی دوسرے ملک میں دور دور تک معلومات پہنچائی جا سکتی ہے ۔یہ ایک بہت جدید مشین ہے اس کے ذریعے بہت سے معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ان سب میں سب سے اہم بجلی کی لہریں ہیں۔یہ سب ایک سائنسی تکنیک ہیں ۔
جیسے جیسے مواصلات کے جدید ذرائع عوم الناس کی دسترس میں آتے گئے ویسے ویسے ویسے کتابوں سے انسان کی وابستگی کم ہوتی گئی حالانکہ
کتابیں شعور اور آگہی بخشتی ہیں۔دنیا کے ہر علم کا منبع کتابیں ہیں۔ہر آدمی کے بڑا بننے کے پیچھے کتابیں بنیادی رول ادا کرتی ہیں ۔کتاب ہی سے علم پروان چڑھتا ہے کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ ’بغیر کتابوں کے گھر ایسا ہے جیسے بغیر روح کے جسم‘۔لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہمارے ملک میں کتابیں پڑھنے کا رحجان دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔طالب علم اور اساتذہ نے خود کو صرف نصابی علم تک محدود کیا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ بھی معلومات کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔انہیں صرف وہی معلوم ہوتا ہے جو یہ نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔عام لوگوں میں کتابوں کی دوری کی وجہ سے جہالت بڑھ رہی ہے۔کتابوں کے رحجان میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں ۔موبائل،انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔پہلے جن کے ہاتھوں میں کتابیں نظر آتی تھیں اب ان کے ہاتھوں میں موبائل،آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ وغیرہ نظر آتا ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ کتابوں کانعم البدل ہے اسلئے اب کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔میں اس نظریے کی نفی کرتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کتابیں اس وقت بھی انٹرنیٹ سے زیادہ مفید ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ترقی یافتہ قومیں ٹیکنالوجی میں اگرچہ ہم سے آگے ہیں تاہم اس کے باوجودانہوں نے کتا بوں سے دامن نہیں چھڑایا۔وہ آج بھی وسیع پیمانے پر کتابیں پڑھتے ہیں۔کتابوں سے دوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب مصنف بھی وہ نہیں رہے جن کااسلوب قارئین کو گرما دیتا تھا۔میری گزارش ہے کہ کتابوں سے دوری کی اس عادت سے چھٹکارا پانا ازحد ضروری ہے کیونکہ زندہ قومیں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر دور میں کتابوں سے اپنا رشتہ قائم رکھتی ہیں۔وہ کبھی یہ نہیں کہتی کہ ’’کتابوں کا دوراب نہیں رہا‘‘۔بلکہ اب جدید موصلات کا دور ہے
(یواین پی)