غیرمعیاری جمہوری اندازِ حکومت ۔۔۔ ایک معمہ

Published on September 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 455)      No Comments

099
عوام پر حکومت کرنے کی خواہش ہر کسی کے دل میں رہی ہے اور اس سوچ کو لیکر ہر وہ انسان جو اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک تھا وہ اپنی زندگی میں حسین خواب دیکھ کر اپنی اپنی سمجھ اور بساط کے مطابق تاج محل تعمیر کرتا چلا آرہا ہے اسی کا نام زندگی ہے کسی دانشور شاعر نے کیا خوب کہا ہے
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں اور خواب دیکھتا بھی نہیں
اچھے خواب دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن بسا اوقات منصوبہ بندیوں میں جو کمیاں رہ جاتی ہیں یا جو خامیاں واقع ہو جاتی ہیں وہ کشتیوں کو پار لگنے سے روک لیتی ہیں ۔
حالیہ ملکی بحران پاکستان کی تاریخ میں بے انتہا اہم ہے اس لیے کہ موجودہ حکومت جمہوریت کی بنیاد پر منتخب ہو کر برسر اقتدار آئی ہے اور اس کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی وفاقی ایوان میں قائد حزب اقتدار ہے ۔اب اگر ہم پاکستان کی سیاسی صورت حال کابغور جائزہ لیں تو یہ چیز ہمارے جاننے میں آتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے جب ۵ سال کا دور اقتدار مکمل کیا تھا تو اس نے ایوان میں موجود اس وقت کی اور آج کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی مسلم لیگ (ن)جو کہ قائد حزبِ اقتدار تھی ان کو فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا تھا حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ساری فرینڈلی اپوزیشن اقتدار کا حصہ تھیں اس لیے کہ برسر اقتدار حکومتیں اپوزیشن جماعتوں کے منہ بند کرنے کے لیے اور منافقت میں ساتھ ساتھ رہنے کے لیے ان کو مختلف طریقوں سے نوازتے رہتے ہیں ۔
مگر جب کوئی جماعت حکومتی رویوں پر برسر پیکار ہو کر عوام سے مخاطب ہوتی ہے تو اس کا مطلب صرف اور صرف یہی ہوتا ہے کہ جس حد تک وہ برسر اقتدار جماعت سے مفادات حاصل کرنا چاہتے تھے ان کی اس حد تک خواہش پوری نہیں کی گئی ۔اور وہ جب مفادات کا ٹیبل پر تحفظ نہیں کر پائے تو کبھی جلسے جلوس ،کبھی دھرنے اور کبھی ریلیوں کی شکل میں قومی اہمیت والی شاہراہوں پر اور کبھی اداروں کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کی مثال جو عوام کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے وہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ماضی اور آج کی صفحہ اول کی دو سیاسی جماعتوں کی سیاسی زندگی اور طرز حکومت ہے ۔
ماضی میں مسلم لیگ (ن) نے در پردہ طور پر پورے پانچ سال دوستی نبھائی مگر منافقت سے! عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کبھی کبھی سر محل کا شوشہ چھوڑ دیا اور کبھی چور ،ڈاکو،لٹیرے ،مداری اور نجانے کیا کیا القابات ان کے نام کر دئیے گئے ۔ اور عوام کو اصلی جمہوریت یعنی جمہور کی طرز حکومت لانے کے پرکشش وعدے کیے ،لوڈشیڈنگ کو چند ماہ میں ختم کرنے کے وعدے کیے اور یہاں تک عوام کو عندیہ دے دیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو بے شک ہمارا نام ہی تبدیل کر دیجئے گا یعنی ’’ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ ‘‘
اور جب موجودہ مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت شروع ہوا تو مقدس مقامات سے وطن واپس لوٹنے والے ان حکمرانوں کا امتحان شروع ہوا ،ان کے کیئے گئے قوم سے وعدے اور اصلی جمہوریت قائم کرنے کی نیک نیتی پر یقین کرتے ہوئے بعض حلقوں میں ان کو عوام کا نمایاں مینڈیٹ حاصل ہوا ۔
آج جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے آج کے قد آور اور ماضی و حال کے ہر لحاظ سے طاقتور امیدواران نے دھاندلی کر کے دوسروں کا مینڈیٹ چرایا ہے اور اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ حکومت کی غلط تر غلط حکمت عملیوں اور اقربا پروری سے تنگ آکر پاکستان کے جمہور جو خواب غفلت میں سوئے ہوئے تھے انھیں بیدار کر دیا ہے ۔اور وزیراعظم کی چودہ ماہ تک پارلیمینٹ سے مکمل طور پر غیر حاضری سے مکمل طور پر آگاہ ہو گئے کہ اننھیں پارلیمان کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر یہ سب کو ساتھ لیکر چلتے تو ماضی کے لیڈروں کی طرح نام نہاد جمہوریت کی کشتی منافقانہ تعاون سے رواں دواں رہتی مگر اپنا دور حکومت شروع ہوتے ہی من مانیوں ،اللوں تللوں کو جاری کرنے سے اور عوام سے کیے گئے وعدوں سے مکمل انحراف ،بے پرواہ ہو کر جمہوری طرز حکومت کو مکمل طور پر فراموش کر کے حکمران جماعت کے تمام عہدے داران اور ان کے رفقاء نے بالکل ایسا انداز ااختیار کیا کہ ’’بابربا عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘
اور اس پر جلتی کا کام زرداری صاحب کے بیان نے کیا کہ ’’عوام نے وزیراعظم چنا تھا بادشاہ نہیں‘‘ اور پھر یہ ڈائیلاگ ملک کے بے شمار سادہ لوح اور باشعور جمہور کے کان میں جب پڑا اور جب اس کی وضاحت دانشواران کی طرف سے ہوئی تو اختلاف رائے کھل کر سامنے آگیا ،تو مخالفین کو بھی موقع مل گیا،عمراں خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی جزبات کا فائدہ اٹھایا اور آج اسلام آباد اسی کے نتیجے میں یرغمال بنا ہوا ہے ۔جس سے میڈیا نے لمحہ بہ لمحہ پورے ملک کو آگاہ کر رکھا ہے اور پورے ملک مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔
ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی خطرے میں پڑ چکی ہے ۔حکومت کا اپنے اداروں پر اعتماد مشکوک نظر آتا ہے ،ملک و قوم کی سلامتی ،بقا ،سالمیت اور تحفظ کی ضامن مسلح افواج پاکستان کے بارے میں حکومتی تضاد بیانیاں اور آئے دن کے غیر معیاری بیانات کے نتیجے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے ملک میں موجود تاثرات کا صحیح رخ تبدیل کرنے کے لیے آئی ایس پی آر کو وضاحتیں پیش کرنی پڑ رہی ہیں ۔
جبکہ در حقیقت افواج پاکستان نے کئی مواقع پر جمہوریت کا تحفظ کرنے میں ہر طرح کا تعاون پیش کرنے میں کبھی غفلت نہیں کی ۔افواج پاکستان ایک غیر سیاسی ادارہ ہے ،جسے ملک کے سیاستدانوں کی بد اعمالیوں اور لوٹ مار سے کوئی سروکار نہیں مگر جب ملک میں حالات دگرگوں ہوں ،برسر اقتدار لوگ اپنے اپنے طرز حکومت اپنے کردار اور ماضی و حال سے ہر طرح سے کم ترین نظر آئیں اور ان سے کسی طور بھی حالات سدھر نہ پا رہے ہوں تو ایسے حالات میں افواج پاکستان کو تشویش ضرور ہو تی ہے کیونکہ وہ ملک و ملت اور جمہور کے محافظ کہلاتے ہیں ۔
آج بعض سیا سی جماعتیں در پردہ طور پر پکار پکار کر افواج پاکستان کو کوئی نمایا ں کردارا دا کرنے کو کہہ رہے ہیں حالانکہ اس بات کو سبھی جانتے ہیں کہ وہ چودھراہٹ اور پگڑی جو بعض افراد اور جماعتوں کو نصیب ہو جاتی ہے ۔جب ان کے چراغ بجھتے ہیں پگڑیاں اترتی ہیں چودراہٹیں ختم ہوتی ہیں تو پھر کار گزاریوں اور کارکردگیوں کے احتساب شروع ہو جاتے ہیں جس کے بعد ہر طرف سے جزا اور سزا کا نظام حرکت میں آجاتا ہے ۔اور اس افراتفری میں برسر اقتدار اور اقتدار کا خواب دیکھنے والے ملیا میٹ ہو جاتے ہیں ۔
قبل اس کے کے برسر اقتدار اور اقتدار کا خواب دیکھنے والے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں انھیں کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی کو منصف جان کر اور اس پر اعتماد کر کے اپنی ضد اور ہٹ دھرمیوں کو چھوڑ کر ،بقائے باہمی کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی افاہیم و تفہیم کا راستہ نکال لینا چاہیئے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ افاہم و تفہیم کچھ لو اور کچھ دو کا اصول اپنائے بنا حل نہیں ہوگا ۔آج پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں سخت لہجے میں سوال کیا گیا ہے کہ وزیراعظم چودہ ماہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں آئے جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا لیکن اس بے نیازی کا نتیجہ اگر ہم عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے موجودہ دھرنے کو قرار دے دیں تو یہ غلط نہ ہوگا ،آج پارلیمینٹ کے وہ اراکین جو عمران خان کے سیاسی ا ور ذاتی مخالف ہیں وہ بار بار طاقت کے استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں اور سوات میں کئے گئے آپریشن کو اسی فلور پر حکومت کی زیادتی شمار کر رہے ہیں تو ایسی دورخی پالیسی رکھنے والے کئی اراکین کی بدولت آج حکومت مختلف اقدام کرتی ہوئی اس بند گلی میں آکھڑی ہوئی ہے ۔اسی لیے ہر محاز پر کھڑے ہر راہنما کو صرف یہی مشورہ ہے کہ وہ مزید جگ ہنسائی سے بچے بے شک کوئی بھی برسر اقتدار رہے مگر اپنے طرز حکمرانی میں حقیقی جمہوریت کے ایسے اصول اپنائے کہ جن سے یوں لگے کہ جیسے واقعی جمہور کی حکومت ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog