ضلع قصور اور گڈ گورننس

Published on October 2, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 758)      No Comments

maher sultan
سب سے پہلے امن و امان کی صورتحال پر بات کرلیتے ہیں تو اس میں وہ بہتری نہیں لائی جاسکی جسکی عوام طالب تھی ضلع کی حدود کے اندر چوری ڈکیتی اور دوران ڈکیتی قتل کے علاوہ زنا بل الجبر کی وارداتیں نان سٹاپ طریقے سے عروج پر ہیں ان کو روکنے کے لیئے کسی حد تک گشت اور ناکوں میں اضافہ کیا گیا مگر عوامی شکایات یہ تھیں کہ ہماری جیبیں محافظ اور ڈاکو دونوں چیک کرتے ہیں ایک آدھ کامیابی مل سکی ہے حقیقی مقدمات کا اول تو اندراج ہی نہیں ہوتا اگر ہو تو سیاسی وڈیروں عرف عام عوامی زبان میں ٹاؤٹوں کے بغیر ممکن نہیں ہے اور من مرضی کا مقدمہ صرف ایک اشارے یا کال پر ممکن ہوتا ہے اس بات کی گواہی میرے ایک سیاسی اسیر دوست نو روزہ مہمان بن کر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں ۔ محکمہ پولیس میں تھری سٹار انسپکٹرز موجود ہیں پھر بھی ٹو سٹارز کو تھانوں کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے چونکہ وہ صیح طریقے سے افسران بالا کی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں عوام کی خدمت جائے بھاڑ میں ان ٹو سٹارز کو سزا و جزا بھی ضلع کے بادشاہ خود دینے کے مجاز ہوتے ہیں اس لئے جو دل چاہے کریں عوامی شکایات کا گلا ضلع کی سطح پر ہی گھونٹ دیا جاتا ہے ٹریفک پولیس اہلکاروں کا م صرف مال اکٹھا کرنا ہے جہاں بھی ہوں
تھانہ کوٹرادھاکشن میں ایک مقدمہ عرصہ تین ماہ پہلے درج ہوا تھا بابت توہین صحابہ و اہلبیت جس کے ملزمان آج تک گرفتار کرنے انتظامیہ نے گوارہ نہیں کئے ہیں اسی وجہ سے ضلع کے امن و امان کو شدید خدشات لاحق ہیں جھوٹے وعدے کرنا ہماری انتظامیہ کا شعار بن چکا ہے میرے یہ الفاظ ضرور کڑوے ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے گزشتہ جمعتہ المبارک کو اہلسنت والجماعت کی احتجاجی ریلی اور دھرنے کی کال تھی جس کو موخر کروانے کے لیے مطلوبہ ذمہ دران کے پاس کوئی بھی تجویز نہیں تھی یہ قابلیت اور معماملہ فہمی اور بصیرت کا حال ہے راقم بھی موجود تھا اس مذاکراتی کمیٹی میں بہت منت سماجت اور زاتی کاوشوں کے بعد عار ضی مگر بے یقینی کی سی کیفیت کا حل نکلا تھا سوال یہ ہے کہ ان ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اس امر کا واضع ادراک ہونے پر بھی کہ امن وامان کو شدید خدشات لاحق ہونگے ری ایکشن کی صورت میں ۔اگر خدا ناخواستہ کچھ ہواتو اس کے ذمہ دار ضلعی انتظامیہ کی مقتدر شخصیات ہوں گی تمام مسالک کے علماء حضرات سے گزارش ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتشار پھیلانے اور دنگا کھڑا سے گریز کریں
محکمہ ایجوکیشن کی بات کرلیں تو اس کا بھی اللہ حافظ ہے میں نے خود بہت سارے سکول وزٹ کئے ہیں جہاں پر طلباء طالبات کی کثیر تعداد آدھی ٹوٹی چھتوں والے کمروں میں بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں پتہ نہیں محکمہ کے افسران کیا وزٹ کرتے ہیں تحصیل کوٹ رادھاکشن میں رکھ مدیکے دھاریوال پرائمری سکول کی بلڈنگ اور گورنمنٹ ہا ئی سکول متہ کی بلڈنگ بلکل بوسیدہ ہے میڈیاء میں نیوز شائع ہونے پر ڈپٹی آفس سے جواب ملا کہ رپورٹ بنا کر بھیج چکے ہیں کیا میڈیاء میں نیوز آنے کے بعد رپورٹ بنا کر بھیجنا محکموں کا کام رہ گیا ہے کیا افسران صرف سیر سپاٹوں کے لیئے جاتے ہیں عقل ماتم کرتی ہے ان کے کاموں پر مگر افسران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے آج بھی بچے ٹوٹے گرد سے اٹے فرشوں پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں یا شائد یہ پالیسی آگئی ہے کہ غریب کا بچہ نہ پڑسکے رابطہ کرنے پر قابل صد احترام آفیسر فون اٹینڈ کرنا گواراہ نہی کرتے ہیں ایک بات عرض کردوں اپنے معزز ضلعی افسران کو کہ آپ چاہے فون اٹینڈ نہ کریں مگر آپکے دفاتر کے راستے عوام کو یاد ہیں اگر اس معاملے کو نظر انداز کرکے دیگر محکمہ جات کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اعلیٰ میعار پر ہر طرف سے صدائے احتجاج ہی بلند ہوتی ہے سڑکوں کی حالت ضلع قصور خاص کر پی پی 176میں تو بس آپ سوال پوچھ کر اس لفظ کی توہین کرسکتے ہیں سیورج سسٹم ،پینے کا صاف پانی ،گلی محلوں اور ٹاؤنز میں بننے والی پی سی سڑکیں کیا خوب کارکردگی ہے پتوکی میں سیورج سسٹم کے نام پر کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا گیا ہے مگر مجال ہے ثبوتوں کے باوجود کوئی ایکشن ہو ۔کرپشن کیسے اور کیوں ہوتی ہے سب کو پتہ ہے بس وزٹ ہوتے ہیں صرف فوٹو سیشن کی حد تک شکایات پر مگر موقع پر جھوٹے وعدے بعد میں منتخب نمائیندوں کی ملی بھگت سے سرد خانے کی نظر معاملات دور کی بات نہیں تحصیل کوٹرادھاکشن کی ایک نمونہ ہے یہاں پر کتنی کرپشن ہوئی اور کس کس نے کی سب تحصیل اور ضلعی حکام کو پتہ ہے مگر ایکشن لینے کی غلطی کوئی نہیں کر سکتا شہر کو دس حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو نو حصوں میں ابلتے ہوئے گٹر نالیاں ،گندگی کے ڈھیر اور پانی کے جوھڑ نظر آئیں گے سرکاری بلڈنگز ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں جو مال آیا ہڑپ کر لیا شہنشاہ تحصیل نے اپنے دفتر کو تو دلہن کی طرح سجا لیا مگر عوام کے گھروں کے باہر سیورج کا پانی اور گندگی کے ڈھیر جوں کے توں ہیں توجہ دلائی جائے تو سنگین نتائج کی دھمکیاں کیا خوب لوٹ مار جاری ہے دھمکیوں پر کچھ الفاظ پیش خدمت ہیں
بہت حفاظت سے رکھا ہے ان چراغوں کو
بجھتے بجھتے بھی ہواؤں سے الجھ پڑتے ہیں
دیکھ فرعون کے لہجے میں بات نہ کر
ہم تو پاگل ہیں دنیا کے خداؤں سے الجھ پڑتے ہیں
بلدیہ کوٹرادھاکشن کی کرپشن پر کوئی دورائے نہیں ہے دو سال قبل کرپشن ثابت ہونے ساری معطل بھی ہوچکی ہے بلدیہ کا عملہ جعلی اسناد پر بھرتی ہونے والے ملازمین پر مشتمل ہے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے ولاے لوٹ مار کرکے لکھ پتی بن چکے ہیں سینٹری انسپکٹر میٹرک کی جعلی سند اور سینٹی انسپکٹر کا سرٹیفکیت نہ ہونے پر بھی اس سیٹ پر لوٹ مارکرنے میں مصروف ہے اور کرپشن کا سرغنہ چیف آفیسر بلدیہ ہے جو کہ محکمہ مال میں بطور کلرک تھا عرصہ نو سال قبل ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے سیاسی رشوت ملنے پر ڈیپوٹیشن پر ٹاؤن کمیٹی کوٹ رادھاکشن تعینات ہے یہ رشوت سابقہ (ق) لیگی تحصیل ناظم سید ہاشم رضوی کی بھرپور حمایت کے نتیجے میں ملی۔ کرپشن کنگ اور نااہل 16سکیل کی سیٹ پر قابض ہے اسی طرح ایک کلرک کی کرپشن سابقہ نائب ناظم نے اس کے گھر سے برآمد کی نام کلرک ملک محمد علی ۔مگر سیاسی اثرو رسوخ پر اس کے خلاف کاروائی نہ ہوسکی ہے تو سیاسی پشت پناہی کا سلسلہ اب تک جاری ہے نئے آنیوالے منتخب عوامی نمائیندوں ایم این اے 138این اے اور پی پی176ایم پی اے کی جانب سے کوئی کاروائی عمل آنے کی بجائے تھپکی والا تاثر ہے میرے چند سینر صحافی اور درددل رکھنے حضرات ان کرپٹ ملازمین اور افسران کے خلاف کاروائی کے لئے خادم اعلیٰ کو درخواست دینے سمیت کورٹس میں جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں جو کہ خوش آئند ہے ضلعی انتظامیہ والے تو بس گلاب جامن کھاکر واپس چلے جاتے ہیں فخر قصور قابل صد احترام بھی اللہ جانے کیو ں کاروائی سے گریزاں ہیں عوام بہتر جانتی ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes