ملکی حالات کے پیش نظر چند اہم تجاویز

Published on December 23, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 329)      No Comments
maryamsamarlogo
بد قسمتی سے ملک کے حالات اس نہج پر چل رہے ہیں کہ جہاں انسانی جان کی کوئی بھی قیمت نہیں ہے ۔ دہشت گرد ہماری ہی صفوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ ؎ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ۔ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانیں 
موجودہ اذیت ناک اور دکھ بھرے حالات میں انسانیت جس طرح سے دم توڑ رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ آخری سانیسیں لے رہی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں پھر بھی ان قیمتی انسانی جانوں کو بچانا ہے  جن کو زندہ رہنے کا حق ہے اور جن کے دم سے ہی یہ کائنات قائم ہے ۔ ہمیں ان پھول سے بچوں کا تحفظ کرنا ہے ہر حال میں 
سکول اور کالچ میں عموما دفاعی حکمت عملی پر زور دیا جاتا ہے ۔اور اپنے بچاو کے مختلف طریقے سکھائے جاتے ہین ۔ مگر حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے دفاعی حکمت عملی کا یہ طریقہ کارگر نہیں ہے ۔ کسی بھی جگہ پر حملہ ہونے کی صورت میں جوابی حملہ کی  بجائے چھپنے یا بھاگنے پر زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ تو اپنی جان بچا پاتے ہیں مگر بہت سی قیمیتی جانیں ۔ دہشت گردی کی نظر ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے دفاعی طریق کار کی بجائے دہشت گردوں سے کس طرح مقابلہ کیا جائے ۔ اس کی تربیت فوری طور پر دی جائے  اور ہر سطح پر اس کا احتمام کیا جائے ۔ خاص طور پر سکول کالچ میں روزانہ کا ایک گھنٹہ اس تربیت ہر صرف کیا جائے ہمارے عظیم ہیرو اعتزاز حسن  نے اپنی دفاع میں بھاگنے یا چھپنے کی بجائے حملہ کا  طریقہ اپنا کر  دہشت گرد کو قابو میں کیا اور اہنی جان دے کر بہت سی قیمیتی جانوں کو بچا لیا  ۔ 
جہاں  بھی   لوگوں کی تعداد زیادہ ہو وہاں سیکورٹٰی کا انتظام سخت بنایا جائے خواہ وہ عمارت کے اندر ہو یا باہر 
سکول میں خاص طور پر ہر کلاس روم میں کچھ ایسا ضروری سامان  موجود ہو جو بروقت کام آسکے۔ مثلا چھڑٰی ۔ رسی ۔ چھوٹے پتھر۔ ریت کی بوری ۔حفاطتی جیکٹ ۔فرسٹ ایڈ کا سامان وغیرہ ۔ ان سب کا استعمال سکھایا جائے ۔ اور سب سے بڑھ کرایسے موقع پر اپنے حواس کو کس طرح قابو میں رکھنا ہے 
عملی مظاہرہ کرکے بتایا جائے  ۔  ۔موبائل ایک فوری اور موثر رابطے کا زریعہ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جائے اور ایمر جنسی نمبر ہر موبائل میں موجود ہونا لازمی قرار دیا جائےمحلے کی سطح سے لے کر ہر جگہ آنے والے مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھی جائے ۔ تمام مساجد رجسٹرڈ ہوں پڑھے لکھے باشعور خطیب حکومت کی باقائدہ اجازت سے لگائے جائیں 
دہشت گرد ذہینت کس طرح پیدا ہوتی ہے اس کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ مذہب کی بجائے اس کا زیادہ تعلق معاشی غیر مساوانہ تقسیم ہے  ۔غریب والدین اپنے بچوں کو غربت سے تنگ آکر مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں ا ور اس کے بعد بے فکر ہوجاتے ہیں ۔ وہ اس بات سے قطعی لاعلم ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کس حال میں ہیں ۔ ادھر مدرسے میں جو انسانیت سوز مظالم اور تعلیم دی جاتی ہے اس کا انکشاف ہوچکا ہے ۔ ان بچوں کو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی دینے کے علاوہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ، لگاتار پڑھایا بھی جاتا ہے اور زہنوں میں انسانیت سے نفرت کا درس بھی دیا جاتا ہے ۔ جنت کے سنہرے خواب بھی دکھائے جاتے ہین ۔ اور جہاد کے نام پر خودکش حملوں کے لئے تیار بھی کیا جاتا ہے ۔ ایسے مدارس کا فوری طور پر سد باب کرنے کی ضرورت ہے ۔
وہ تمام عناصر جو بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں ان کو بھی قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے    
اس وقت تک تقریبا 700 کے قریب خود کش حملے اور دھماکے ہو چکے ہیں جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 60 ہزار قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے ،جن مین ہر مسلک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے معصوم اور بے گناہ لوگ شامل ہیں 
خود کش حملہ کرنا اور خودکشی کرنا ایک ہی طرز عمل ہے جس کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں بلکہ اس کو حرام قرا ر دیا گیا ہے ۔ قرآن و حدیث سے یہ با ت ثابت نہیں ہوتی کہ آپ چھپ کر معصوم بچوں پر اور نہتی خواتین پر حملہ کریں بلکہ اسلام تو  ان کا مکمل تحفظ فراہم کر تا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب فرقے اور نسل سے ہو۔یہ علماء کرام کی زمہ داری ہے کہ ایسے خیال اور سوچ کی حوصلہ شکنی کی جائے 
Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes