کیا حلال کیا حرام

Published on February 11, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 356)      No Comments

unnamed
ایک زمانہ ہوا کرتا تھا ! لوگ بھوک سے مر جانا پسند کرتے تھے لیکن حرام شئے کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتے تھے ۔ والدین اپنی اولاد کو ابتدائی طورپریہی تعلیم دیتی تھی کہ بیٹھا جو بھی کام کر سکتے ہو کرو بس یہی خیال رکھنا کہ تمہاری کمائی حرام کی نہ ہو۔اب ہم موجودہ دور کے حالات پرنظر ڈالتے ہیں، تو جو دیکھنے کو ملے گا وہ صرف اور صرف یہی ہوگا کہکمانے کی ایک ایسی ریس لگی ہوئی ہے جس میں ہر ایک شخص خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آیا وہ جو کام کر رہا ہے وہصحیح بھی ہے کہ نہیں۔ بس سب کی ایک ہی خواہش ہے کی دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے نکل جائے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ،حضرت محمد ﷺ نے فرمایا! میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گیجن کو اس بات کی فکر نہیں ہوگی کہ آیا وہ جو رزق کما رہیں ہے وہ حلال سے ہے کہ حرام سے ہے۔اب یہی حال ہمارے آج کل کے کاروباریوں کا ہے، کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ہم جو کما رہے ہیں اس میں حلال کتنا ہے اور حرام کتنا ہے۔ سب اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ بس پیسہ آجائے چاہے جیسے بھی ہو ‘چاہے حرام سے بھی ہو تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بعد میں اسی حرام کی کمائی سے لوگ تمام اچھا ئی کے کام بھی کرتے ہیں خیرات صدقات دئیے جاتے ہیں اور جنت کمانے کے لئے حج بھی جاتے ہیں۔ فرمانِ رسول اللہ ﷺہے کہ، جب کوئی انسان حلال کمائی سے حج ادا کرنے کا اراد ہ کرتا ہے اور اپنا پیر رکاب میں ڈالتے ہوئے اللھم لبیک کہتا ہے تو آسمان سے ایک منادی دی جاتی ہے‘ لبیک وسعدیک تمہارا سفر خرچ حلال ہے، تمہاری سواری حلال ہے، تمہارا حج مبروز ہے اس میں گناہ نہیں ہے۔اور جب وہ حرام مال سے حج کیلئے روانہ ہوتا ہے اور اپنا پاؤں رکاب میں ڈالتا ہوئے اللھم لبیک کہتا ہے تو آسمان سے اسی طرح منادی دی جاتی ہیکہ تمہارا لبیک کہنا مقبول نہیں،تمہارا ازادِ راہ حرام ہے،تمہارا خرچ حرام ہے اورتمہارا حج قبول نہیں۔لیکن ہم میں سے کون اس بارے میں سوچے گا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے کام کے بارے میں یہ پتہ لگائے کہ آیا وہ جو کما رہا ہے وہ حلال ہے بھی کہ نہیں کیونکہ ان لوگوں کی نظرتو بس اس دنیا کی مادی اشیاء پر ہے ان کا آخرت سے بھلا کیا کام۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں لگتا ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے پر ایسا کب ممکن ہو ا ہے کہ کوئی جاندار اس دنیا میں آئے اور موت کا مزہ نہ چھکے’’فرمان خداوندی ہے ’’ کل نفس ذائقۃ الموت‘‘۔ آج کے دور کا انسان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے کہ اسلام نے اس کو جن افعال سے منع فرمایا ہے وہ انہی میں لگا ہوا ہے ،جیسا کہ اسلام نے سود لینے اور دینے سے منع کیا ہے لیکن ہم نے کب اس کام سے خود کو روکنے کی کوشش کی ہے‘ جس کی ایک معمولی سی جھلک موبائل کمپنیوں کی جانب سے اپنے صارفین کو قرض دینے کے نام پر سود کی دکان ہے جو خوب چل رہی ہے اور ہر کوئی بیس تیس روپے کا قرض لے کر بعد میں دُگنا ادائیگی پر مجبور ہوتا ہے۔کوئی بھی اس بارے میں نہیں سوچتا کے وہ تو ڈبل گنا ہ خرید کر اپنے آپ کو جہنم کا ایند ھن بنار ہا ہے۔ اگر کسی کی توجہ اس جانب دلائی جائے تو جواب ملتا ہے کہ بھائی آج کل کون حلال طریقے سے کماتا ہے ہم نے بھی تھوڑا سے چکھ لیا تو کیا ہوا۔اب اگر ہم سب یہ کہیں گے کہ کوئی بھی حلال طریقے سے نہیں کماتا ہے تو ہم کیو ں کمائیں اور اُسی طرح حرام کمانا جاری رکھیں تو روزِ محشر اللہ تعالیٰ خالق کائنات کا کس منہ سے سامنا کریں گے ۔ چونکہ ہم مسلمان ہے ،ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا دین اس بارے میں کیا کہتا ہے ‘کاروبار حلال میں سے ہے کہ حرام میں سے؟،کیونکہ اسلام دین فطرت ہے جو ہمیں کوئی بھی حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘پھر ہم کیوں ان خرافات میں پڑکر اپنا آخرت خراب کررہے ہیں۔آئیے یہ عہد کریں کہ ہم آج کے بعد جو کمائیں گے ہماری پہلی اور آخری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو بھی کام کریں اس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوش نودی شامل ہو۔
ختم ہوجاتی ہے زندگی‘ بادشاہت اُجڑ جاتی ہے
کچھ بھی بننے سے پہلے اے انسان تو‘ نیک تو بن۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy