شیر قوم کے گیدڑ لیڈر

Published on March 1, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 842)      No Comments

my picture
تحریر۔۔۔ انجینئر افتخار چودھری
ہم یک طرفہ کہانیوں پر یقین رکھنے والے لوگ ہر سطح پر ایک ہی کی سن کر اسی کی طرف داری میں لگ جاتے ہیں۔جس فریق نے پہلے بات کر لی وہی سچا دوسرے کو سنتے بھی نہیں اور اپنی ساری توپیں پہلے والے کی کہ گئی کہانی کے مطابق دوسرے پر داغ دیتے ہیں۔مجھے جدہ کے معروف دانشور ڈاکٹر احمد زبیر نے عزت بخشی برادر فرخ رشید،عبداللہ رحمان اور سیف اللہ قصوری میرے ساتھ ان کے در دولت پر پہنچے وہاں ان سے پاکستان کے معاشی معاملات پر دل کھول کر بات ہوئی ڈاکتر زبیر اسلامک ڈویلیپمنٹ بنک کے اعلی عہدے دار ہیں انہوں نے مجھے بنک کی اسلامی ملکوں کے لئے کی گئی خدمات سے آگاہ کیا وہیں برادر سہیل ملک سے بھی ملاقات ہوئی جو سول انجینئر ہیں ۔میری پریشانی تھی سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے معاشی مستقبل اور اس سے بڑھ کر پاکستان کو تیل کی تیزی سے کم ہونے والی قیمتوں کے اثرات تھے۔سچی بات ہے مجھے ڈر تھا کہ پاکستانیوں کو تیل بیس روپے لیٹر کم تو مل رہا ہے کہیں سعودی عرب اور خلیج میں مقیم پاکستانی رگڑے میں نہ آ جائیں اس لئے کہ ان ملکوں کی معیشتیں تیل سے جڑی ہوئی ہیں ۔عاملی منڈی میں امریکہ کی خلیجی تیل سے بے نیازی کے مضر اثرات کا خوف تھا۔میں دیکھ رہا تھا کہ کہیں باہر کے ملکوں سے جانے والے ۱۳ بلین ڈالرز جنہوں نے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قدرے بے نیاز کیا ہوا ہے اگر اس مد سے خطیر رقم جانا بند ہو گئی تو کیا ہو گا۔میں دیکھ رہا تھا کہ میرے ملک میں سعودی عرب سے بے انتہا رقوم جا رہی ہیں خدا نخواستہ یہ ملک ہلا تو ہماری چولیں ڈھیلی ہو کر رہ جائیں گی۔میرے دوست کا کہنا تھا کہ مآنے والے دو سال میں اگر قیمتیں ایسی ہی رہیں تو تیسرا سال ان ملکوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔میرا ڈر غلط نہیں تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ امریکہ کو اب ملکوں کے تیل کی ضرورت نہیں رہی۔اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر امریکہ نے آئیندہ کئی سالوں کے لئے تیل اکٹھا کر لیا ہے۔مجھے پاکستان کے ان لاکھوں غریب گھروں کی فکر تھی ڈاکٹر صاحب نے مجھے حوصلہ دیا کہ ٹیکنالوجی کسی کی میراث نہیں آئیل کمپنیوں کو جہاں فائدہ ملا وہیں جائیں گی۔یہ جان کر تسلی ہوئی کہ آئیندہ دو سال آئیل کمپنیوں سے بہتر معاملات کرنے والے ملک دنیا میں چھائے رہیں گے جن میں مشرق وسطی کے ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔دوستوں سے ملیں تو نئی راہیں بھی کھلتی ہیں وہین ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو پاکستان کی خارجہ وزارت میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو قریب سے دیکھتا رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے افسران پر گلا کیا جاتا ہے کہ وہ کام نہیں کرتے بلکہ ایسا نہیں ہماری حکومتیں اپنے پاؤں پر وزن نہیں ڈالتیں ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ انڈیا اورامریکہ کے ایٹمی معاہدے کی مخالفت کرنے میں بہت سے ملکون سے بات کر چکے تھے مگر کریں کیا ہماری حکومتیں واشنگٹن میں بیٹھے پاکستانی سفیر کے اشروں پر وہ کام کر جاتی ہیں جو پاکستان کے لئے نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت کے لئے فائیدہ مند ہوتا ہے۔اس نوجوان افسر نے بتایا کہ ایک بار ہم بہت سے ملکوں بشمول یورپی ملکوں کیو اپنا ہمنوا بنا چکے تھے مگر جب یوسف رضا گیلانی کو امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر حسین حقانی کی جانب سے غلط سلط بریف کیا گیا تو ہمیں اپنا لکھا ہوا خط بھی واپس لینا پڑا اس پر تو اور بھی ھیرانگی ہوئی کہ خارجہ امور کی میٹینگز میں سیکریٹری خارجہ اور دیگر افسران کو سرے سے اعتماد میں نہیں لیا جاتا بلکہ جناب فاطمی نواز شریف اور مریم نواز اس قسم کے فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں اور الزام تھوپ دیا جاتا کہ وزارت کارجہ کچھ نہیں کرتی۔مجھے ان کی باتوں پر یقین تھا کچھ عرصے سے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح میاں نواز شریف بھی مریم نواز کو کارجہ امور سکھانے کی کوشش کر رہیں ہیں ۔میاں صاحب بہر حال باپ ہیں اور پدری خواہشات کے ہاتھوں مجبور اپنی بیٹی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں مگر انہیں اس بات کا تو علم ہونا چاہئے کہ ان میں اور بھٹو میں، بے نظیر اور مریم میں کتنا فرق ہے۔
مجھے ان محب وطن افسران پر رشک آیا جو پاکستان کے لئے ہر ایک ملک کے دروازے پر گئے لوگوں نے ان کی ڈھارس بندھائی سعودی عرب تیونسے انڈونیشیا سب نے۔میں ان صفحات پر کئی بار لکھ چکا ہوں کے شیروں کی قوم کاو گیدڑوں کی سربراہی مل گئی ہے۔بھارت کے وزیر اعظم مودی کو ملے اوبامہ نئی دہیل ملنے آتے ہیں بھارت کے پاس ۱۳۰ ٹن جوہری توانئی کے لئے یورینیم ہے امریکہ سے ایٹمی ری ایکتروں کے ساتھ اسے ۵۰ ٹن مل جائے گا بھارت اس سے پہلے ۵۰ ٹن بجلی پیدا کرنے کے لئے اور باقی ۳۰ ٹن ایٹمی اسلحے میں استعمال کرتا رہا ہے مزید ۵۰ ٹن وہ اسلحے کے لئے استعمال کرے گا، انہوں نے کہا جس دن خط واپس لیا گیا میں گھر آ کر رویا میری بیگم نے کہا چپ کر کے نوکری کرو پاکستان پاکستان نہ کیا کرو مگر ایس اہوتا نہیں ہے جس ملک کے خمیر سا سراٹھایا ہو اس کے لئے کہاں خاموش رہا جاتا ہے۔سارے پاکستانی حسین حقانی نہیں ہوتے اور سارے لیڈر ہمارے حکمرانوں جیسے نہیں۔
قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں پاکستان بھی مشکل دور سے گزر رہا ہے یاد رکھئے زرداری اور نواز شریف دور میں وزارت خارجہ سے کوئی نہیں پوچھتا ہمارے یہ افسران پاکستان کے لئے سوچتے ہیں ہمارے سفیروں کو باہر بٹھا دیا جاتا ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی کے معاہدے نواز شریف اسحق ڈار اور مریم نواز کرتی ہیں۔زرداری گیلانی کرتے ہیں۔اس میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ہوں یا فاطمی وزارت خارجہ کے دردمند پاکستانیوں کا کوئی قصور نہیں۔پوری آلو کی بھجیا بہترین جوس کڑک دار چائے کا مزہ اپنی جگہ لیکن میں بوجھل دل سے برادر زبیر کے گھر سے گھر آیا ہوں۔سوچتا ہوں کشور حسین شاد باد کی سربراہی اگر گیدڑوں نے ہی کرنی ہے تو میں بھی سرکس کا شیر بن جاتا ہوں ورنہ کسی نے سچ کہا ہے پاکستانی قوم شیر ہے مگر گیدڑوں نے اقتتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔عالم اسلام کا قلعہ پاکستان چودھری رحمت علی اور اقبال کے خوابوں کی تفسیر ہر ایساتو نہ تھا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog