جوڈیشل کمیشن بن گیا

Published on April 5, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 473)      No Comments

Rifat mazhar-1
مستقبل کی خاتونِ اوّل محترمہ ریحام خاں کی سالگرہ کے موقعے پر نوازلیگ نے اُنہیں جوڈیشل کمیشن کاتحفہ دے کرہمارے کپتان صاحب کاجی خوش کردیا ۔ صدارتی آرڈیننس جاری ہوچکاجس کے تحت سپریم کورٹ کے تین معززجج صاحبان اِن تین بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کریں گے کہ آیا 2013ء کے عام انتخابات منظم، ایماندارانہ ،شفاف ،غیرجانب دارانہ اورقانون کے مطابق تھے یاپھر دھاندلی ہوئی ۔اگر دھاندلی ہوئی توپھر کیامنظم اندازمیں کسی منصوبے کے تحت اِن انتخابات پراثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی؟۔ تیسرابنیادی سوال یہ ہے کہ کیامجموعی طورپر 2013ء کے انتخابی نتائج درست ہیں اور اِن میں عوام کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ کی درست عکاسی ہوتی ہے ؟۔تحقیقاتی کمیشن میں اگریہ ثابت ہوجائے کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کواقتدار میں لانے کے لیے منظم اندازمیں دھاندلی ہوئی تھی توپھر بھی اِس آرڈیننس میں وزیرِاعظم کے استعفے یااسمبلیوں کی تحلیل کرنے کی کوئی بات شامل نہیں۔گویااِس تحقیقاتی کمیشن کی کوئی آئینی حیثیت ہے نہ قانونی اوریہ صرف اخلاقی بنیادوں پر قائم کیاگیا ایساکمیشن ہوگاجس کی تحقیقات اورسفارشات پرعمل درآمدبھی صرف اخلاقی بنیادوں پر ہی کیاجا سکے گا، آئینی وقانونی بنیادوں پر نہیں۔ اب یہ اعلیٰ عدلیہ نے طے کرناہے کہ کیا ایساکوئی کمیشن تشکیل پابھی سکتاہے یانہیں۔ کمیشن کی تشکیل کی صورت میں بھی بہت سے ایسے سوالات جنم لیتے نظرآتے ہیں جن کاجواب آنے والے وقتوں میں ہی دیاجا سکتاہے ،مثلاََاگر تحقیقاتی کمیشن یہ طے کردیتا ہے کہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی توکیا وزیرِاعظم صاحب قومی اسمبلی تحلیل کردیں گے؟۔ سندھ اوربلوچستان (جہاں انتخابی دھاندلیوں کا اتناشور نہیں جتنا پنجاب میں ہے )کیااِن دونوں صوبوں کے ا ربابِ اختیاراپنی حکومتیں ختم کرنے کے لیے تیارہو جائیں گے؟۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات کے بارے میں توخاں صاحب متعددبار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاں انتخابات شفاف ہوئے ۔کیا خیبرپختونخواکی حکومت بھی ختم کردی جائے گی؟۔ اوراگر ایساہوا توکیا یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین نہیں ہوگی؟۔سوالات تواور بھی بہت سے ہیں لیکن ابھی توعدالتی کمیشن بھی تشکیل نہیں پایا اِس لیے ہم انہیں’’قبل ازمرگ واویلا ‘‘کے مصداق ٹھہراتے ہوئے یہیں پر چھوڑتے ہیں۔
ایم کیوایم اوراے این پی کے بزرجمہروں کی ماہرانہ رائے یہ ہے کہ یہ سب ’’مُک مکا‘‘کی سیاست ہے۔ایم کیوایم والے کہتے ہیں کہ کپتان صاحب کی زبان توپیپلزپارٹی اورنوازلیگ پرمُک مکاکا الزام دھرتے نہیں تھکتی تھی لیکن اب وہ بھی اسی سیاست کاحصّہ بن گئے لیکن ہماری ’’ارسطوانہ‘‘سوچ کے مطابق ایساہرگز نہیں البتہ یہ ضرورکہ تحریکِ انصاف نے بعداز خرابئ بسیاراُسی پراکتفا کر لیاجوکچھ وزیرِاعظم صاحب نے 12 اگست 2014ء کواپنے قوم سے خطاب میں دینا چاہالیکن کپتان صاحب نے صاف انکارکردیا ۔سچ تویہ ہے کہ تحریکِ انصاف اُس سے بہت کم پرراضی ہوگئی جواُسے دھرنوں کے دنوں میں دیا جارہا تھا ۔تب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے خاں صاحب کویہ کہاتھا کہ اگروہ وزیرِاعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹ جائیں تو باقی تمام مطالبات حکومت سے منوائے جاسکتے ہیں لیکن اُس وقت خاں صاحب ہواکے گھوڑے پرسوارتھے کیونکہ اُن کے صلاح کارلال حویلی والے شیخ رشیدجیسے لوگ تھے جنہیں کسی زمانے میں کپتان صاحب اپنا ’’چوکیدار‘‘رکھنابھی پسندنہیں کرتے تھے ۔بہرحال دیرآید ، درست آیدکے مصداق حکومت اورتحریکِ انصاف جوڈیشل کمیشن کے نکات پرمتفق ہوگئے اورصدارتی آرڈیننس بھی جاری ہوگیا ۔اِس صدارتی آرڈیننس کی تشکیل کے بعد سیاسی جماعتوں نے نہ صرف اسے سراہابلکہ سُکھ کاسانس بھی لیاکیونکہ کپتان صاحب ایک دفعہ پھر’’اوکھے اوکھے‘‘ بیانات دینے لگے تھے ۔
نوازلیگ اورتحریکِ انصاف میں جن نکات پر اتفاق ہواہے اُنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے تویہ نظرنہیں آتاکہ تحریکِ انصاف کے ہاتھ کچھ آنے والاہے کیونکہ کسی بھی صورت میںیہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ 2013ء کے الیکشن میں ’’منظم دھاندلی‘‘ہوئی اوراِس دھاندلی کے پیچھے نوازلیگ کاہاتھ تھا ۔تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ثبوت موجودنہیں۔ کنٹینرپر کھڑے ہوکر کاغذوں کے پلندے ہوامیں لہرانا اوربات ہے اورجوڈیشل کمیشن میں ثبوت پیش کرکے اپنی بات ثابت کرنایکسر مختلف۔دوسری طرف نوازلیگ کے پاس کہنے کوبہت کچھ ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ چاروں صوبوں اورمرکز کی نگران حکومتوں میں وہی لوگ آئے جو پیپلزپارٹی کے منتخب کردہ تھے ۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی دیانتداری پرعمران خاں صاحب کواندھا اعتمادتھا ۔نجم سیٹھی کے انتخاب کواُنہوں نے سراہا اورخود ضِد کرکے 2013ء کے الیکشن عدلیہ کے زیرِنگرانی کروائے ،یہ الگ بات ہے کہ حسبِ منشاء نتائج نہ آنے پرخاں صاحب نے ’’آراوز‘‘کے کردارکو ’’شرمناک‘‘ قراردیا جس پراُنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے یہ کہہ کرجان چھڑوانی پڑی کہ اُنہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ’’ شرمناک‘‘ گالی ہوتی ہے ۔اُنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمدچودھری صاحب کوبھی اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعدالیکشن دھاندلی میں ملوث قراردیتے ہوئے سرِعام یہ کہا’’چودھری صاحب ! آپ کتنے میں بِکے؟‘‘۔افتخارچودھری صاحب ، محترم خاں صاحب کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کرچکے ہیں اور صدارتی آرڈیننس کے بعدوہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اب عمران خاں صاحب کوجوڈیشل کمیشن میںیہ ثابت کرناہوگا کہ میں الیکشن دھاندلی میں ملوث تھا۔اُنہوں نے کہا’’میرے نزدیک یہ بہت اچھّاموقع ہے کہ میں جو الزامات عمران خاں نے مجھ پرلگائے ہیں ،اُن کابہت اچھّا جواب دوں‘‘ ۔پنجاب کے سابق نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی بھی خاں صاحب کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں جا چکے ہیں۔خاں صاحب نے کہاتھا کہ انہوں نے وہ آڈیوٹیپ خودسنی جس میں نجم سیٹھی صاحب 35 پنکچروں کا ذکر کررہے تھے ۔نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اب خاں صاحب کووہ آڈیوٹیپ بھی جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کرنی ہوگی جس کاسرے سے وجودہی نہیں۔ خاں صاحب نے جنگ جیوگرپ پربھی الزام لگایاکہ 2013ء کی الیکشن دھاندلی میںیہ گروپ بھی ملوث تھا ۔اُنہوں نے توکافی عرصے تک جنگ جیوگروپ کابائیکاٹ بھی کیے رکھا ۔جسٹس خلیل رمدے صاحب پربھی دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے حالانکہ وہ تو الیکشن سے پہلے ہی ریٹائرہو چکے تھے ۔ایسے ہی الزامات تمام الیکشن کمشنرزپربھی لگائے گئے ۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگریہ سبھی لوگ انصاف کی خاطر سپریم کورٹ کے سامنے دھرنادے کربیٹھ گئے تو 45 دنوں میں تحقیقاتی کمیشن کیسے فیصلہ کرپائے گا؟۔ہماراعدالتی نظام توایساہے کہ ’’دادا‘‘کیس کرتاہے اور’’پوتا‘‘ فیصلہ سنتاہے جبکہ یہاں تو ہزار بارہ سو انتخابی حلقوں کی تحقیقات مقصودہے ۔ایسے میںیہ کیسے ممکن ہے کہ صرف پینتالیس دنوں میں تحقیقاتی کمیشن اِن تین بنیادی سوالوں کا جواب دے پائے ۔اِس لیے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ نوازلیگ نے تحریکِ انصاف کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘ کردیا ہے اوربہتر یہی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سبھی اراکین ’’نیویں نیویں‘‘ ہوکر اسمبلیوں میں چلے جائیں کیونکہ اسی میں اُن کابھلا ہے ۔اگر اُنہوں نے یہ موقع بھی گنوادیا توپھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیںآئے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Blog