پاکستان کی چند قابل فخر بیٹیاں

Published on November 3, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 470)      No Comments

\"Maryum\"
اللہ تعالی نے پاکستانیوں کو بھرپور ذہانت عطا فرمائی ہے ۔ہمارا ماضی حال اور مستقبل اس بات کا گواہ ہے ۔ہمارے پاس نوبل انعام بھی ہے تو آسکر ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز بھی ہمیں حاصل ہے ہم ورلڈ ریکارڈ ہولڈر بھی ہیں تو کھیلوں کے چمپیئن بھی رہ چکے ہیں۔
ہم ایٹمی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو ہمارے پاس عبد الستارا یدھی جیسی باہمت اور قابل فخر شخصیت بھی ہیں ۔ الغرض ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں قابل فخر لوگ پیدا کئے ہیں اور لیکن اگر کمی ہے تو قومی سطح پر ان ذمہ دار محب وطن افسران اور سیاست دانوں کی۔۔۔ کاش اس شعبہ میں بھی ہم خود کفیل ہوتے توآج پاکستان ترقی کی شاہراہوں پر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہوتا اور عوام الناس بجلی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتو ں اور مہنگائی کا رونا رونے کے علاوہ بھی کچھ کرنے کا سوچتی ۔ سیاست دانوں کی کرپشن اور بد انتظامی کی وجہ سے کتنے ہی ذہین دماغ اور ذہن آج مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں ۔
اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے ۔جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ گھر سونا اور ویران نظر آتا ہے ۔پاکستان کی بیٹیاں اس کی آن بان شان او ر عزت ہیں ۔اس ملک خداد داد میں ایسی باہمت نڈر اور ذہین بیٹیاں ہیں کہ یہ ملک بجا طور پر ان پر فخر کر سکتا ہے ۔ آج میں ان میں سے نمایاں چند ایک کا ذکر کروں گی ،جنہوں نے پاکستان کا نام بہت چھوٹی عمر میں ہی پوری دنیا میں روشن کیا ہے اور اسکی عزت میں اضافہ کیا ہے ،
ارفع کریم رندھاوا : 2فروری 1995کو فیصل آباد میں پیدا ہوئیں ۔ لاہور گرائمر سکول سے اے لیولز کیا تھا۔ 2006 میں نو برس کی عمر میں مائیکرو سافٹ سر ٹیفائیڈ پروفیشنل امتحان پاس کر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچانے والی پہلی پاکستانی لڑکی تھی ۔جس کے بعد کمپنی کے مالک بل گیٹس نے ان کو خصوصی طور پر امریکہ بلایا اور ان سے ملاقات کی ۔ارفع نے فخر سے کہا کہ میں اس قوم کی بیٹی ہوں جو ترقی پزیر ہے اور انشااللہ میں ایک دن اس ملک کے نام سے پہچانی جاؤں گی ۔جب بھی ملک کی بیٹیاں بین الاقوامی اسٹیج پر اس طرح بات کرتی ہیں تب پاکستان کے مظلوم محب وطن کے دلوں میں یہ گیت کسی پہاڑی ندی کی طرح بل کھاتا لہراتا ہے کہ
ہم مائیں
ہم بہنیں
ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے
دوہزار چھ میں ایک دفعہ پھر ان کو دوبارہ مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کواٹر میں مدعو کیا گیا ۔ان ملاقاتوں کے بعد ارفع کو بین الاقوامی طور پر صحیح پہچان ملی ۔یہاں ایک سوال ذہین میں کھٹکتا ہے کہ جب تک انگریز ہماری حوصلہ افزائی نہ کرے ہمیں اپنے نامور سپوتوں کی کامیابی کا یقین ہی نہیں آتا ۔
ارفع کریم نے چھوٹ سی عمر میں کئی انعامات بھی حاصل کئے ۔2005میں انھیں فاطمہ جناح گولڈ میڈل دیا گیا اس کے علاوہ سلام پاکستان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔حکومت پاکستان نے ان کو حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا ۔ارفع کریم شاعرہ بھی تھیں ۔ ان کی ایک خوبصورت نظم سفید گلاب ہے ۔
سفید گلاب کھڑا رہتا ہے طوفانوں کے درمیان
قیامت خیز لہروں کے درمیان
مگر ثابت قدم رہتا ہے سفید گلاب
پر وہ نہیں جھکتا
کتنا پاکیزہ ہے سفید گلاب
زمین سے جڑا رہتا ہے تب بھی
جب سیاہ راتیں اسے ڈراتی ہیں
اے سفید گلاب ! تو میری آنکھوں سے دور سہی
پر میں تیری حفاظت کرنا چاہتی ہوں
مگر میرے پاس فقط لفظ ہیں
میں یہ لفظ اور شاعر کا دل تجھے بھیج رہی ہوں
تب تک قائم رہنا جب تجھے دیکھنے کی امید باقی ہے
اب نئے گلاب مضبوطی سے جمے رہنا
تمہارا دل تو سچائی سے معمور ہے
جب تک چاہو گے تم سے محو گفتگو رہوں گی
ارفع کریم صرف آئی ٹی پروفیشنل ہی نہیں تھی بلکہ شاعرہ پائیلٹ اور ٹیچر بھی تھی ۔
چودہ جنوری2012کو صرف 16 سال کی عمر میں مرگی کے دورے کی وجہ سے کومہ میں چلی گئیں جو کہ جان لیوا ثابت ہوا ۔جنوری 2012 میں ارفع کے نام پر ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا ۔ارفع کریم نے اپنی ڈائیری میں آخری فقرہ یہ لکھاتھا ۔\’\’ اس زیاں خانے میں اب تیرا امتحان ہے زندگی \’\’۔
ستارہ بروج اکبر9سال کی عمر میں بیالوجی اور10سال4ماہ کی عمر میں تمام مضامین میں او لیول کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والی اس بچی نے پاکستان کا خوب نام روشن کیا ان جیسے بچے یقیناًملک و قوم کا قابل فخر سرمایہ ہیں ۔حصول علم کے لئے ان کی اس کاوش پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔یقیناً انھیں ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرنا ابھی باقی ہیں ۔ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں
نبیلہ: یہ وہ بچی ہے کہ جس نے بظاہر تو کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا مگر اس با ہمت بچی نے ڈرون حملہ کے نتیجہ میں اپنی پیاری دادی کو کھو دیا ۔اس کو اور اسکے خاندان کو امریکہ بلوایا گیا تاکہ ان کی المناک داستان کو سنا جائے ،اور اس نے اپنی غمزدہ داستان پھر کچھ اس طرح سے بیان کی کہ مترجم بھی اپنے آنسو نہ روک سکی ۔کچھ لو گ ملالہ اور نبیلہ کا آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں کہ یہ بچی بھی تو ہے جو ڈرون کے خلاف ہونے والی المناک ہلاکتوں کو بیان کرنے کے لئے امریکہ گئی ہے ۔جبکہ اس کے برعکس ملالہ اپنی ہی پاک فوج اور طالبان کے خلاف بات کرتی ہے ۔نبیلہ کا کہنا تھا کہ اس کو نیلے آسمان سے ڈر لگتا ہے اور جب آسمان پر بادل ہوتے ہیں تو اس وقت ڈر نہیں لگتا کیونکہ بادلوں میں ڈرون نہیں ہوتا۔۔ ؂ گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیا ں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
اب چھتوں پر ڈرون گرائے جاتے ہیں محبتوں اور راحتوں کا موسم نجانے کب شروع ہوگا ۔ظالموں نے بچوں کا بچپن اور ان کی صلاحیتیں بھی چھیننا شروع کر دی ہیں ۔۔دہشت گرد بھی دشمن ہیں اور ڈرون گرانے والے بھی دشمن ہیں ۔نبیلہ نے پوچھا کہ ڈرون حملے میں مرنے والی میری پیاری دادی کا کیا قصور تھا۔۔؟ ؟ ،کیا وہ دہشت گرد تھیں اب کون نبیلہ کو پریوں کی کہانیاں سنائے گا ۔۔؟
نبیلہ نے کہا کہ کیا میں دہشت گرد ہوں ؟ مجھے پڑھنے سے کس نے روکا میں پڑھنا چاہتی ہوں ۔میں پاکستان جاکر بتاؤں گی کہ امریکہ نے مجھے سنا ہے ۔امریکی عوام بہت اچھے لوگ ہیں۔۔۔۔ اور امریکی حکام؟؟
نبیلہ کو کون بتائے کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکام میں بھی یہی فرق ہے۔۔
ملالہ : ان پانچ چھ سالوں میں جہاں مزکورہ بالا انتہائی کم عمر پاکستان کی ذہین اور معصوم بیٹیوں نے اعلیٰ اور بین الاقوامی نام اور مقام حاصل کیا ہے تو ملالہ ان سب میں سے زیادہ شہرت کی بلندیوں پر نظر آتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ملالہ اب ایک متنازیہ شخصیت بنتی جا رہی ہے یا اس کو بنایا جا رہا ہے ۔ سوات کے ایک گاؤں سے لے کر زخمی ہونے تک اور لندن سے اقوام متحدہ کے خطاب سے لے کر بین الاقوامی اعزازات حاصل کرنے تک ملالہ مسلسل کچھ لوگوں کی تنقید اور بہت سے لوگوں کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع سخن ہے ۔ یہاں تک کہ روزنامہ ڈان نے اس پر نام نہاد ایک تحقیق بھی کر ڈالی جو مکمل طور پر مفروضے پر مبنی ہے اور اس میں رتی برابر بھی صداقت نہیں ہے ۔ملالہ کی لکھی یا لکھوائی جانے والی کتاب مائی نیم از ملالہ بھی بعض حلقوں میں شدید تنقید کی نظر سے دیکھی جا رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں بھی مکمل صداقت سے کام نہیں لیا جا رہا ۔اس کتاب کو اگر یہ بات ذہن میں رکھ کے پڑھیں کہ اس کی لکھنے والی بزات خود ملالہ نہیں ہے بلکہ ایک انگریز خاتون ہے تو بہت سے اعتراضات خود بخود ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔
مثلا انصار عباسی صاحب اور اوریا مقبول جان کو یہ اعتراض ہے کہ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ایک دفعہ بھی نہیں لکھا ۔جبکہ ایک دفعہ لکھا ہوا ہے ۔اور اگر آپ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں تو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے ۔ آپ ضرور صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھ لیں ۔آپ کو تو ثواب مل ہی جائے گا ۔۔
اگر اس نے فوج کے بارے میں کچھ ایسا ویسا کہا ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ کیا پرویز مشرف فوج سے تعلق نہیں رکھتے کیا طالبان کے حمایتی کھلم کھلا فوج کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ۔ہمیں فوج کا مورال ہر حال میں بلند کرنا ہے ۔اس لئے ہمیں ہر محاذ پر فوج کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے ۔ہم سیاسست دانوں کو ان کی جعلی ڈگریوں پر تو معاف کر دیتے ہیں ۔مگر ملالہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے ہیں ایک اور اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ اس کتاب میں قائد اعظم کو ان کے نام جناح سے یاد کیا گیا ہے ۔اعترض کرنے والے پھر یہاں تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھ رہے ہیں ۔ظاہر ہے قائد اعظم تو ہمارے ہیں ۔کتاب کی رائیٹر کے تو نہیں ہیں ۔۔پھر اس کتاب میں ملالہ نے احمدیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ حکومت نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے جبکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کا مؤقف یہ ہے کہ کسی حکومت جماعت یاشخص کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو بھی غیر مسلم قرار دے ۔ مذہب کا معاملہ خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہوا کرتا ہے ۔
پاکستانی عوام اور قلمکاروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر کوئی ملالہ کو استعمال کر بھی رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب بخوشی استعمال ہونے کو تیار ہیں ،اگر آپ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ اگر کوئی انگریز لڑکی پاکستان آئے اور اپنے ملک کے نظریات اور اپنے پر ہونے والے ظلم کی داستانِ الم سنائے تو ہم تب بھی اس کو خوش آمدید کہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس کو تحقیق سے یہ بھی ثابت کرنے کی کو شش کریں کہ یہ تو مسلمان تھی ۔اور اس کے بارے میں نت نئی کہانیاں تخلیق کریں گے مگر میں یقین اور وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ امریکہ کو اس کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں ہو گی ۔اس لئے کہ یہ اعزاز صرف ہمیں ہی حا صل ہے ۔
پاکستانی عوام دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے ۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ملالہ کو پاکستان اور اسلام سے شدید خطرہ ہے تو میرے خیال میں اس سے بڑھ کر نادانی اور بیوقوفی کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔
اسلام کے نظریات اور افکار آفاقی ہیں۔اور جب اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے تو ہم کیوں اس کو اپنی انا کا مسئلہ اور اشتعال انگیزی کا باعث بنا لیتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے اعمال اور کردار کو بہتر کیا جائے ۔اور اس پراصرار نہ کیا جائے کہ ہم ہی بہتر ہیں اور اتنے بہتر ہیں کہ اب ہم نے دوسروں کی اصلاح کا ٹھیکہ بھی اٹھا رکھا ہے سب نے اپنی اپنی قبر میں الگ الگ جانا ہے ۔ ہم ملک کی سیاست سے اور معاشرے سے اور گند تو صاف کر نہیں سکے اور اب عوام الناس کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اپنے ناتواں کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog