پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن میں موجود کارکنان کی عمرو اسناد کو چیک کرنے کے لیے بھی جے آئی ٹی بننی چاہیے

Published on June 10, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 491)      No Comments

11418570_1119238741423437_924563610_n
کیا سید شاکر عزیر اپنی ملازت کی مدت پوری کر چکے ہیں یا نہیں؟ اس کا جواب کون دے گا؟
اسٹوڈیوز میں باہر سے آلات کرائے کی مد میں بھاری قیمت ادا کر کے اپنا کمیشن رکھ کر پی ٹی وی کے مالی خزانے کو تباہ کر رہے ہیں
اسلام آباد۔۔۔ پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن میں ایسے لوگ ابھی تک نوکری کر رہے ہیں جن کی اسناد جعلی ہیں لہذا پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن میں موجود کارکنان کی اسناد کو چیک کرنے کے لیے جے آئی ٹی بننی چاہیے اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ ایسے ایمپلائیز کی اسناد کو چیک کرنے کے لیے جب بھی قدم اٹھایا جاتا ہے یااس سلسلے میں کمیٹی بنتی ہے یہ عناصر اپنے اثر و رسوخ استعمال کر کے ان با اثر شخصیات کے گھروں پر جا کر منت سماجت کرکے اپنے ناموں کو نکالنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں یا ان دستاویزات کو چیک کرانے کے بجائے ان کی مٹھی گرم کر دی جاتی ہے اور فائل کو دبا دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ یہ لوگ بااثر شخصیات کے گھر یا گاؤں میں جا کر ان سے جڑی شخصیات کا نام لے کر ان کے خلاف کارروائی رکوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پی ٹی وی میں ایک اعلی عہدے پر فائز سید شاکر عزیر اپنی ملازت کی مدت پوری کر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کی سروس جاری ہے اور اعلی عہدے پر فائز ہیں یہ کون بتائے گا کہ ان کی ملازت ابھی باقی ہے یا وہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں ذرائع کے مطابق سینئرئٹی لسٹ گروپ ۴ تا ۹ میں پہلی اپریل ۱۹۸۲ ؁ء اور سینئرئٹی لسٹ گروپ ۴ سے زائد میں پہلی اپریل ۱۹۸۷ ؁ء کے مطابق ان کی عمر۱۱ دسمبر ۱۹۴۴ ؁ء لکھی ہوئی ہے جس میں انہوں نے بطور اپرنٹس پروڈیوسر کے لیے پنجاب سے ایپلائی کیا اور ان کی سینئرئٹی کا سال پہلی جنوری ۱۹۸۷ ؁ء درج ہے مگر پاکستان ٹیلی وژن کی فنکار ڈائریکٹری( ۱۹۸۲ ؁ء کے مطابق صفحہ نمبر۴۵پر) اُن کی عمر ۱۸ مارچ ۱۹۵۲ ؁ء تحریر ہے جب کہ اسلامیہ ہائی اسکول موہنی روڈ کی جانب سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ میں ۱۸ مارچ ۱۹۵۱ ؁ء موجود ہے، اب سوچ طلب بات یہ ہے کہ اس میں صحیح تاریخ پیدائش کون سی ہے، یہی نہیں بلکہ پاکستان ٹیلی وژن میں کئی ایسے لوگوں نے اپنی عمروں کا غلط اندراج کرایا گیا ہے یا ان کی اسناد جعلی ہیں اور وہ ابھی تک پاکستان ٹیلیوژن میں مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں واضح رہے کہ مقامی نجی کمپنی کے خلاف جعلی ڈگریوں کا کیس ایف آئی اے میں چلایا جا رہا ہے اور بہت سے ایسے راز افشاء ہو رہے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،پی ٹی وی کے تمام سینٹرز پر اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے سخت بے چینی ہائی جاتی ہے ان کے مطابق چونکہ پی ٹی وی سرکاری ادارہ ہے اور ایسے حساس ادارے میں جب اس طرح کے لوگ اپنی مفی سوچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تو وہ دور نہیں جب پی ٹی وی کو ایسے لوگوں کی جانب سے اندھیروں کی جانب مزید زبردستی دھکیل دیا جائے گا، ابھی بھی پی ٹی وی میں ایسے من پسند افراد کو من چاہی پوسٹوں پر فائز کیا جا رہا ہے جس کا تعلق بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ایم ڈی یا ان سے جڑے من پسند افراد سے ہے وہ ان کی ہر جائزوناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں میں بھی ملوث ہیں جس کی مثال بڑے بڑے شوز اور اسٹوڈیوز میں باہر سے آلات کرائے کی مد میں منگواکر بھاری قیمت ادا کر کے اپنا کمیشن رکھ کر پی ٹی وی کے مالی خزانے کو تباہ کر رہے ہیں اور اپنے اسٹوڈیوز میں تالے پڑے ہوئے ہیں اور باہر سے ایسا کام خریدا جا رہا ہے کہ جس سے پی ٹی وی کا معیار مزید دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے جس کا تعلق براہ راست طور پر پی ٹی وی کے ایم ڈی سے بنتا ہے پاکستان کے ارباب اختیار کو اس مسئلے کی جانب نہایت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور نہایت حساس ادارے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بھی جے آئی ٹی بننی چاہیے جس میں ایسے شر پسند عناصر کو پردہ اسکرین پر لایا جائے جو دونمبر کام کے ذریعے مختلف شعبوں کے نمائندگی کر رہے ہیں ،ایسے لوگوں نے اُن لوگوں کا حق مارا ہے جو اس کے اہل ہیں حیرت کی بات ہے کہ ایسی کارروائی نہ تو پی ٹی وی کے ایم ڈی کی جانب سے کی جاتی ہے اور نہ تو ایسے سنگین مسئلے کی جانب سینٹ کے اجلاس میں اٹھائی جاتی ہے اور نہ ہی کسی صوبائی یا وفاقی اسمبلی کے اجلاس میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی قرارداد پیش کی جائے جس میں ایسے عناثر کے لیے سخت سے سخت ترین سزا کے ساتھ ایسے چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے جو ایسے حساس ادارے میں کام کر رہے ہیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog