جماعت اسلامی سے چند کڑوے سوال

Published on November 28, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 472)      No Comments

yasen_of_Graphic1
جناب سراج الحق صاحب نے فرمایا ہے کہ اب ظالم طبقہ اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتا (سراج الحق) ۔
مگر اس کی وضاحت اگر کر دیتے کہ ظالم طبقہ سے کیا مراد ہے اوروہ کون ہیں جو اس طبقے کو تحفظ فراہیم کر رہے ہیں تو ان کا اس قوم پر احسان ہوتا ساتھ یہ بھی اگر فرما دیں کہ اب وہ ظالم طبقے کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہیں اور اپنی بات پر قائم بھی رہیں ۔
بھوک سے لوگ مر رہے ہیں اور حکمرانوں کے لندن ،ملائیشیاء اور امریکہ میں بنگلے ہیں ۔ (سراج الحق) ۔
لیکن وہ حکمران جن کا ذکر کیا ہے یہ موجودہ حکمران نہیں ہیں بلکہ سابقہ حکمران بھی ان میں شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ دونوں ہمارے بھائی ہیں اور انہوں نے ہمارے اجتماع کو کامیاب کروانے میں بھی ہمارا ساتھ دیا بلکہ بقلم خود بھی تشریف لائے اس لیے ان کو حکمران نہ سمجھا جائے بلکہ یہ تو خادم ہیں عوام کے ان کے لندن ،ملائیشیاء اور امریکہ میں بنگلے نہیں ہیں بلکہ جھونپڑیاں ہیں ۔
ہمیں اب امریکہ اور مدینہ منورہ میں سے ایک کو منتخب کرنا ہو گا ۔(سراج الحق )۔
یہ حکم صرف عوام کے لیے ہے ہم نے دونوں سے تعلقات استوار کررکھے ہیں جس کا واضح ثبوت ہمارے یہ دو بیانات ہیں رب کی دھرتی اور رب کا نظام کا نعرہ ہم عوام کو خوش کرنے اور مدینہ منورہ جیسی ریاست بنانے کے لیے لگا رہے ہیں اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے جمہوریت اللہ کی نعمت قرار دے رہے ہیں ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں ایسا کر کے ہم نے کہا تھا کہ اب جماعت اسلامی کی باری ہے امید ہے کہ ہماری امید پوری ہو گی
۔67 سال میں ہم اپنی صحیح سمت متعین نہیں کر سکے (سراج الحق )۔
یہ بات انہوں نے ویسے تو پوری پاکستانی قوم کے لیے کہی ہے مگر شائد ان کا مقصد اپنی جماعت اسلامی کی اب تک کی پالیسی کو بیان کرنا تھا ۔اب تک جماعت اسلامی کی جو سمت ہے اس بارے میں تو جماعت اسلامی خود بھی نہیں جانتی کہ کیا ہے کوئی اور کیسے جان سکتا ہے مثلاضیا الحق ،مشرف پرویز ،فضل الرحمن،ن لیگ ،پیپلزپارٹی،تحریک انصاف ،اے این پی وغیرہ سے اتحاد کرنا اور حال میں ہی حکومت ،پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تینوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا ۔ اس اس بابرکت کام کے لیے باقاعدہ سیاسی جرگہ تشکیل دینا ۔دھرنے والوں کو کہنا کہ وہ درست کر رہے ہیں اور دوسری طرف جمہوریت کو ہم نے بچایا ہے ۔یہ نظام ظالم نظام ہے اس سے نجات ضروری ہے اسے کسی اور کے ہاتھوں ختم نہیں ہونا چاہیے ہاں جب ہم کریں گے تو یہ عین ملکی مفاد میں ہو گا ۔بلکہ اسلامی بھی ہوگا اور یہی کام اگر عمران یا قادری نے کر لیا تو انتشار ہے ملکی مفادات کو نقصان ہے اسے لیے اس کو ہم نے ختم نہیں ہونے دیا بلکہ اپنا کندھا پیش کر کے سہارا دیا تا کہ اس کو گرانے کا کریڈٹ کوئی اور نہ لے سکے ۔اب وقت آنے پر ہم اس نظام کے خاتمے اور تکمیل پاکستان ،اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کا نعرہ لگا کر میدان میں آئیں گے اک ذرہ انتظار یہ عمران و قادری کا زور کم ہونے دیں ۔کافی ھد تک انہوں نے حکومت اور اس نظام کو کمزور کر دیا ہے ہمارا تو ایک دھکا ہی کافی ہو گا اور کریڈٹ مل جائے گا ۔
جمہوریت پاکستان کے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے ملک سے پہلے برے لوگوں کو ختم کیا جائے بذریعہ جہاد اور پھر اس میں بے شک جمہوریت نافذ کر دی جائے (منور حسن کے بیان کا مفہوم )۔
جناب منور حسن کی پہلی بات سو فیصد درست ہے پاکستان میں جمہوریت مسائل کا حل نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کسی بھی ملک میں جمہوریت نہیں ہے مثال صرف اقوام متحدہ کی وہاں بھی صرف پانچ ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے ۔ان ممالک ننے ڈنڈے کے زور پر دنیا سے منوایا ہے کہ جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے ۔ان کی طاقت کے سامنے کوئی ملک کھڑا نہیں ہو سکا جو جمہوریت کی خامیاں بتاتا زیادہ نہیں صرف ایک خامی جمہوریت میں منور حسن،طاہر القادری ،میں اور کوئی بھی بے عمل علم برابر ہیں یعنی علم والے اور بے علم برابر ہیں اسلامی میں برابر نہیں ہیں اس لیے جمہوریت کا نظام دین ا سلام کے متضاد ہے ۔اب اس کی جگہ خلافت کہ لو یا اسلامی نظام حکومت کہ لو یکسر مختلف ہے ۔اب دوسری بات کی حمایت میں نہیں کر سکتا اس طرح سب خود کو صالحین خیال کر کے دوسروں کو قتل کرتے پھریں گے ۔جس سے ضانہ جنگی کا خطرہ ہے اسے فساد فی الارض پھیل جائے گا ۔
جماعت اسلامی نے سود کے خلافف اعلان جنگ کر دیا
یہ اعلان تو جماعت روز اول سے کرتی آئی ہے صرف اعلان کرنے سے کیا ہو گا اصل بات ہے کہ اس سودی نظام سے سچ مچ جنگ کرے ۔جو جو ادارے سود میں ملوث ہیں ان کے خلاف ڈٹ کے کھڑی ہو جماعت میں ایک خامی ایسی ہے جو اس کی تمام خوبیوں کو کمزور کرنے کا باعث بن جاتی ہے وہ ہے اپنے ہی منشور پر ڈٹ کے کھڑے نہ ہونا اور ادھر ادھر دیکھتے رہنا وقت پر فیصلہ نہ کرنا اور بعد میں پچھتاتے رہنا بعض ایسے فیصلے وقت گزرنے کے بعد کرنا جو اپنی اہمیت کھو چکے ہوں اس کے علاوہ اپنے مفادات کے لیے اتحاد کرنا اور جس سے اتحاد کیا ہو اس کا بھی ساتھ نہ دینا بلکہ خود کو اعلی خیال کرتے رہنا اس بات کی وضاحت ذرہ تلخ حقائق پر مبنی ہے مختصر سی نظر اب تک ان جماعتوں پر جن سے جماعت اسلامی نے اتحاد کیا ۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف دونوں سے ۔میاں نواز شریف یا مسلم لیگ ن سے اور اے این پی سے بھی آپ دیکھیں ان دونوں جماعتوں کے نظریات میں کتنا فرق ہے ۔اسی طرح مولانا فضل الرحمن اور اب تحریک انصاف سے بھی ۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے جماعت اسلامی کا اپنا کوئی بھی واضح طور پر موقف نہیں ہے اس کے کچھ مفادات ہیں جہاں سے بھی پورے ہوں ۔اب سود کے خلاف اعلان جنگ بھی کیا ہے اور اس سودی نظام کو بچانے کے لیے سیاسی جرگہ بھی بنایا تھا ۔جماعت کے قول و فعل میں تضاد ہے اس کا مجھے دلی طور پر بہت دکھ ہے ایک اتنی منظم جماعت جس کے چاروں صوبوں میں کارکن بھی ہیں جو پاکستان کی سب جماعتوں سے زیادہ سٹریٹ پاور بھی رکھتی ہے وہ ناکام ہو رہی ہے اس جلسے سے پہلے بھی اور یہ جلسہ کرنے کے بعد تو بدنام بھی ہو رہی ہے ۔مجھے جماعت سے ہمدردی اس لیے بھی ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد ابھی چند دن پہلے کی بات ہے جس طرح جماعت اسلامی نے کی اس کی مثال نہیں ملتی اتنے اچھے کارکن ایک واضح پالیسی نہ ہونے سے ضائع ہو رہے ہیں ۔جماعت کو یا تو اسلامی کہنا خود کو چھوڑ دے یا پھر اسلام نافذ کرنے کے لیے دن رات ایک کر دے اور صرف ان سے اتحاد کرے جو ایسا کرنے میں مخلص ہیں ۔ اور مسلک کی جبائے دین اسلام کو سامنے رکھ کر اتحاد کرے جیسے کہ منھاج القران یا عوامی تحریک کی جماعت ہے اس نے اتحاد کیے ہوئے ہیں ۔عوام پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتے ہیں وہ جو جماعت بھی کرے اس کے ساتھ ہیں صرف نعروں سے کا م نہیں چلے گا عمل سے بات بننے گی کسی اور کی خامیاں نکال کر خود کو اچھا ثابت کرنے کی بجائے اپنے عمل سے ایسا کرنا ہو گا کہ اصولوں پر جماعت واقع سودے بازی نہیں کرتی مثلا سود کے خلاف اعلان جنگ پر ہی ڈٹ جائے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress主题