قرض مرض اور فرض

Published on September 5, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 730)      No Comments

Amjad Khan
وہ ایک سیدھا سادھا اصول پسند اور پرہیز گار انسان تھا پیشے کے لحاظ سے درمیانے درجے کا کسان ہونے کے سبب صبح آنکھ کھلتے ہی نماز پڑھنے کے بعد کھیتوں کی طرف نکل جاتا اور شام کو واپس آنے پر اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتا اِس نے اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان بھی بنا رکھی تھی وزیراحمد اپنے دِن بھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر شام کے وقت دکان کھول لیتاکیونکہ اِس کے دوست احباب بھی شام کے وقت ہی فارغ ہوتے تھے جو دکان کھلتے ہی یہاں جمع ہوجاتے اور رات گئے تک خوب گپ شپ لگاتے وزیراحمد اِس دوران دوستوں سے گپ شپ کے ساتھ ساتھ اپنی دکان داری بھی کرتا رہتا اِسے خدا نے اپنی تمام تر نعمتوں سے نواز رکھا تھا اِس کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے تھے اِس نے بیٹوں کو پڑھانے کی بہت کوشش کی مگر دیہاتی ماحول ہونے کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکے جبکہ بیٹیاں پڑھ لکھ گئیں،بیٹے حوش سنبھالتے ہی جب اِس کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے لگے تو اِس نے اِن کی شادیاں بھی کردیں جبکہ بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی کے میٹرک کرنے کے بعد اور چھوٹی کوبیٹی کومحکمہ صحت میںLHVبھرتی کروا کراِس کی پسند کی جگہ اِسے بھی بیاہ دیا گیا اب گھر کے کام کاج کا زیادہ تر بوجھ تیسری بیٹی پر آن پڑا تھا جو کہ اِن شادیوں سے پہلے پانچویں جماعت سے ہی سکول چھوڑ چکی تھی اِس لئے اِس نے یہ بوجھ باآسانی اُٹھا لیااور گھر میں کافی اہمیت کی حامل ہوگئی،اِس اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باپ نے اِسے فون کی سہولت بھی فراہم کر دی،اِس فون میں صرف اور صرف اِس کے عزیز واقارب کے نمبر ہی ہوا کرتے تھے اور دِن بھر وہ اپنے کام کاج میں یا اِنہیں عزیزواقارب سے گپ شپ میں مصروف رہتی ،اب اِس کی عمر تقریباً 35 سال کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی مگر اِس نے کبھی کِسی غیر محرم کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں تھا اِس لئے اِسے گاؤں والے ایسے ہی سمجھتے تھے جیسے وہ گاؤں کا کوئی معززمرد ہی ہے ،اور اِس کی اِسی شرافت وگھریلواہمیت کے سبب والدین بھی اِس کیلئے کِسی بہت ہی اچھے رشتے کی تلاش میں تھا مگر برادری میں ایسا کوئی رشتہ درکار نہ تھا جس کی وجہ سے اِس کی شادی لیٹ سے لیٹ تر ہوتی جا رہی تھی ،جبکہ بزرگ یہ کہتے ہیں کہ ’’قرض ‘‘مرض‘‘اورفرض اُتارنے میں دیر مت کرو ،ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا،
خیر ایک دِن ایسا ہوا کہ وزیراحمد کی بیٹی مذکور ساجدہ کے فون پر کِسی رونگ نمبر سے کال آگئی کالر نے ایک دفعہ تو اِس سے کھری کھری سُننے کے بعد کال کاٹ دی جبکہ دوسری دفعہ اِس سے بے عزت ہونے کے باوجود بھی بڑے مہذبانہ طریقہ سے اِسے مخاطب کرتے ہوئے کچھ دیر گپ شپ کرنے کی انتہائی عاجزانہ درخواست کی ،جس پر اِسے اگلے دِن کے فارغ وقت میں بات کرنے کا ٹائم مِل گیا ،اگلے روزجب فارغ وقت میں بات ہوئی توکالر کی جانب سے ٹیلی فونک دوستی کی استدعا کی گئی ،جو آخر کارتقریباً ایک ماہ بعد منظور ہوگئی،اِس ٹیلی فونک دوستی کو شروع شروع میں تو کبھی 15منٹ کبھی آدھا گھنٹا ٹائم مِلتا رہا مگر جو ں جوں وقت گزرتا گیا دوستی کا ٹائم بڑھتا گیا اور رشتہ داروں کیلئے کم پڑتا گیا ،آخربات یہاں تک چلی گئی کہ سارا سارا دن فون کان پر ہی رہنے لگا، مگر گھر والوں سمیت کِسی کو بھی کبھی کوئی شک نہ ہوا،اور ایک دِن ایسا ہوا کہ یہ لڑکی جب گھر سے اچانک غائب ہوگئی تو والدین نے پہلے فون پر رابطے کی ہر ممکن کوشش کی مگر فون بند ہونے کی صورت میں عزیز واقارب سے پوچھ کچھ شروع کردی گئی ،رشتہ داروں کی جانب سے بھی کوئی مثبت جواب نہ مِلنے پر گاؤں سے چھان بین شروع کر دی گئی آخر پورا گاؤں ’’و‘‘راشتہ دار چھان مارنے کے باوجود بھی جب نہ مِل پائی تو یہ شک کیا گیا کہ کہیں کھیتوں کی طرف ہی نہ نِکلی ہو جہاں سے اُسے کوئی جنگلی جانور کھا گیا ہو سوفصلیں بھی دیکھی گئیں مگر نہ مِلنے پر اِس شک کے ساتھ کہ اُسے کوئی گھر سے نِکلتے ہی اگوا کرلے گیا ہوگا ایک ہستے بستے گھر میں صفے ماتم بچھ گئی ،اور گاؤں میں اِس اِک خوف کی فضا پھیل گئی ،باپ نے شام کودکان پہ محفل جمانا چھوڑ دی اور ماں نے کھانا پینا چھوڑ دیا،یہ صفے ماتم ابھی اُٹھی نہیں تھی کہ ایک اخبار میں خبر شائع ہوگئی کہ فیصل آباد وومن پولیس کا قحبہ خانے پر چھاپہ تین دوشیزائیں برآمد، یہ خبر اِس کے والد نے پڑھی اورپڑھتے وقت جب برآمد ہونے والی خواتین میں اِس لڑکی کا ذکر ہوا تو والد شرم کا مارا گھر چھوڑ گیا اور بھائی یہ اخباری تراشہ ہاتھ میں لیئے بہن کی کھوج جب متعلقہ اخبار کے نمائندے تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ اِسے کِسی نمبر سے فون آیا تھا کہ کوئی نامعلوم شخص مختلف مقامات کی رہائشی تین خواتین کو پیار کے جال میں پھانس کر فلاں جگہ واقع ایک فحاشی کے اڈے پر فروخت کر گیا ہے اور وہ وہاں سے آزاد ہونا چاہتی ہیں ،اور میں نے جب اِس کال پر وہاں پولیس کا ریٹ کروایا تو واقع ہی تین خواتین بازیاب ہوئی ہیں جن میں شامل آپ کی بہن کے مطابق اسے فروخت کندہ شخص اِس کو بذریعہ فون اپنے پیار کے جال میں پھانس کریہاں لایا اورپہلے چار یوم تک اپنے کِسی دوست کے گھر اپنی حوس کا نشانہ بناتا رہا پھِر یہاں فحاشی کے اڈا پر لاکر بیچ گیا ہے ،اور اِس وقت وہ فیصل آبادوومن پولیس اسٹیشن میں بند ہیں،رپورٹر کی یہ بات سنتے ہی متاثرہ دوشیزہ کا بھائی ایک بار تولڑکھڑا گیا پھِرخود کو سنبھالتے ہوئے جب وومن پولیس اسٹیشن پہنچا تو جواب مِلا کہ اِس کی بہن تو دہشت گردی کے کِسی الزام میں گرفتار ہے اور وہ کِسی نامعلوم مقام پر ہے سو وہ یہ جان کر تھانے سے نِکلتا ہی غشی کھا کر گِر پڑا اور اورکچھ دیر بعدحوش سنبھلتے ہی بہن کا درد دِل میں لئے انصاف کی بھیک مانگتا لوٹ آیا،اور اب اِس کی زُبان پردوسروں کیلئے صرف ایک ہی درس ہے کہ قرض مرض اور فرض اُتارنے میں کبھی دیر نہ کرو ، ورنہ ہماری طرح پچھوتاوے کے سوا کچھ باقی نہ بچے گا،ہم نے بھی اپنی بہن کا فرض اُتارنے میں یعنی کہ اُسے بیاہ دینے میں بہت دیر کر دی تھی سو آج ہم بھگت رہے ہیں،یہ اُس دُکھی بہن کے دُکھی بھائی کا درس ہے،جو اِک شیطان کے جھوٹے لفظوں کے جھال میں پھنس کر آج صرف اپنا ہی نہیں اپنے خاندان کا بھی سب کچھ برباد کر بیٹھی ہے ،اور اِسے میرا اپنے کالم میں بیان کرنے کا مقصد محض اتنا سا ہے کہ آج کل کی ہماری نوجوان نسل میں یہ دوستیاں عام ہیں اِن دوستیوں کو ایک فیشن سمجھا جانے لگا ہے ،اور اِس فیشن کی بھینٹ چڑھ کر ہر روز نہ جانے کتنی ہی زندگیاں برباد ہورہی ہیں ،نہ جانے کتنے ہی خاندانوں کی عزتیں خاک میں مِل رہی ہیں ،
لہذا یہ فیشن نہیں بلکہ بربادی کی سیڑھی ہے جس سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے بچوں، بہن بھائیوں اور قریبی دوست احباب پہ کڑی نظر رکھنی چاہئے ،اُن کے جوان ہو جانے پر اُنہیں آزادانہ نہیں چھوڑ ناچاہئے بلکہ اُن کے جذبات، احساسات وخواہشات کی فکر کرنی چاہئے اور اگر کسی کو اِس سیڑھی پر چڑھتا دیکھ لیں تو اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے کی بجائے اِپنے اِس دوست یا بہن بھائی سے اِس معاملہ کو ڈسکس کرنا چاہئے ،اُسے اعتماد میں لینا چاہئے پھِرپہلے اُسے پیار کے ساتھ اِس بات سے روشناس کرانا چاہئے کہ یہ لفظ یہ قسمیں سب جھوٹے ہیں یہ محض ضرورت کی حد تک ہیں بعد میں کچھ نہیں اگر اِس کے باوجود بھی کوئی بات نہ بنے تو اُسے بھاگنے یا بھگانے کا مشورہ پھِر بھی نہ دیں بلکہ اِس کے بھیانک نتائج سے اُسے بخوبی اگاہ کرنا چاہئے اورانتہائی مثبت طریقہ سے بات اُن کے والدین تک پہنچائیں اورانہیں بھی اپنے والدین کی رضا مندی سے شادی کرنے کا مشورہ دینا چاہئے تا کہ وہ منفی طریقہ سے اپنے انجام کو پہنچنے کی بجائے مثبت طریقہ سے پہنچ کر اپنی واپنے خاندان کی تباہی وبربادی سے بچ جائیں ،جس سے صرف اِسی خاندان کو ہی نہیں بلکہ آپ کو بھی بے حد فائدہ ہوگا وہ یہ کہ ایک تو آپ کا اِس خاندان سے رشتہ واعتماد مذید مظبوط ہو جائے گادوسرا مستقبل میں آپ کی عزت کی بھی کوئی ایسے ہی حفاظت کرجائے گا،اور تیسرا یہ کہ آپ کو بھی کوئی ایسے ہی اُلٹے راستے سے ہٹا کر سیدھے پر ڈال جائے گا،اور اگر اِس دُنیا میں ایسا نہ ہوسکا تو اِس کا اجرو ثواب آخرت میں آپ کو ضرور مِل جائے گا،اور اگر آج آپ خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو کل دُنیا آپ کا تماشادیکھے گی،اور آپ کے مشورہ مانگنے پر بھی کوئی سیدھا مشورہ نہ دے گا

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog