کچھ بات غذا سے متعلق

Published on September 14, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 525)      No Comments

logo made
پاکستان میں جہاں ملاوٹ کا ناسور بہت عرصے سے موجود ہ ہے وہیں صفائی نصف ایمان ہے سے بھی انحراف کیا جاتا رہا ہے یہ منحرف ہونے والے کوئی اور نہیں بلکہ چھوٹے اور بڑے ریستوران کے مالکان ہیں جو انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے میں کوئی شرمساری محسوس نہیں کرتے گلی سڑی اشیاء خرونوش سے پکوان تیار کرنا مضرِ صحت گوشت استعمال کرنا ان کے نزدیک کوئی گناہ نہیں بلکہ پاک طینت ہے تو ان کی کمائی چاہے جعل سازی سے کریں یا کسی کی جان کا اماں چھین کر۔کریک ڈاوُن کا سلسلہ شروع ہوا پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز نے مکرو کاروبار کرنے والے اشخاص کا پنجاب بھر میں تعاقب شروع کیا تو اتنے بڑے بڑے نام سامنے آئے وہ کیفے یا ریسٹورنٹ جہاں قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور وہاں کے پکوانوں کو معیاری سمجھا جاتا تھا ان کیچن رومز سے گندگی کے ڈھیر بر آمد ہوئے ۔حیرت زدہ بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے ان عناصر کا قلع قمع کرنے میں شدت آئی انہیں فائن کیا گیا ان کے ہوٹل سیل کیے گئے ،کاروبار کی چمک دمک نے ہوٹل مالکان کو اتنا بے حس کردیا کے وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کی دھجیاں اڑاتے رہے۔صفائی ستھرائی اور عوام تک بہتر کھانا مہیاء کرنے پر عوام اظہارِ تشکر کررہے ہیں تاہم نیچ زرائع استعمال کر کے کمائی کرنے والے ہوٹلوں کے مالکان اس سب کو حقارت کے ترازو میں تولتے ہیں کیونکہ ان کا دھندہ چوپٹ ہو رہا ہے عوام میں شعور آرہا ہے اور اب وہ صرف ان جگہوں سے ہی کھانا پسند کریں گے جہاں انہیں کوالٹی کا راگ الاپتے ہوئے کوئی مضر شے نہ کھلا دے۔عائشہ ممتاز کو ان کے انتھک کام پر بہت سراہا گیا دبنگ لیڈی کا لقب بھی دیا گیا ،میرے عزیزم بھائی فیصل ہاشمی نے تو ان پر ایک کالم بھی لکھ دیا جس کا عنوان تھا’’ عائشہ کی ممتازیاں‘‘۔ جہاں بہت سے لوگ اس خاتون کی مداح سرائی کر رہے ہیں وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان سے عداوت کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ اس افسر کی بے باکی نے ان کا بزنس فلاپ کرا دیا ہے۔آج کل کہا جارہا ہے کہ عائشہ ممتاز کو سیلیوٹ ہے کہ انہوں نے ستر فیصد بیویوں کا دل ہوٹلنگ سے بیزار کردیا اور شوہروں کی جیب سے اڑ جانے والا ایک بڑا حصہ محفوظ کرادیا۔2011 ء میں قائم ہونے والی یہ اتھارٹی پچھلے کچھ ماہ سے فعال ہوئی ہے اور یہ سب وزیراعظم محمد نواز شریف کی آشیرآباد سے ممکن ہوا ہے اور اب چھاپوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے بہت نامور طعام خانوں کے نام سامنے آتے جارہے ہیں۔وفاق میں بھی اس کاروائی کا ازسرنو آغاز ہوچکا ہے اور بہت سے اونچے نام والے ریستوران صفائی اورپاکیزگی میں پورے نہیں اتر پائے اور انہیں سربمہر کردیا گیا ۔چونکہ نواز شریف کشمیری ہیں اس لئے ان پر الزام ہے کہ وہ بہت کھاتے ہیں جبکہ ان کی غذا بہت محدود سی ہے وہ سینڈوچ وغیرہ پسند کرتے ہیں سری پائے اور بھاری غذا وہ بہت کم کھایا کرتے ہیں۔صحت کے اصولوں پر پورا اترتا کھانا عوام تک پہنچے یہ نواز صاحب کی اولین ترجیحات میں سے ہے،شنید یہ بھی ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو صحت بخش کھانا میسر آجائے اس لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں وزیرِاعظم کا فائق کردار ہے۔لائف اسٹاک اپنی ذمہ داریاں اتنے احسن طریقے سے نہیں نبھا رہا فوڈ اتھارٹی کی معاونت کی وجہ سے ہی اس کی کچھ کاروائیاں عمل میں آئیں اور مضر گوشت تحویل میں لیا گیا قصابوں کا چیک ان بیلنس رکھنے کے لیے نیا نظام متعارف ہونا وقت کی دکھتی رگوں میں سے ہے ۔روُف کلاسرا نے ٖفوڈ سٹریٹ میں پڑے گند کو لاہور کا ٹرینڈ قرار دے دیا تھا خیر اس وقت کوئی تبدیلی لے کر آنے والی کاروائی بھی شروع نہ ہوئی تھی مگر میرا موقف ہے کہ درالسلطنت میں زیادہ اصولِ صحت کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں لیکن وہاں بھی کاروائی کا آغاز ہوچکا ہے اور دیکھا جائے تو شہرِقائد میں بھی میڈیا کی بدولت مکرو لوگ جو نا جانے کس جانور کا گوشت بیچتے پھرتے ہیں اُن کے خلاف دھاوا بولا گیا۔شہباز شریف کا بہترکارکردگی پر فوڈ اتھارٹی کے لیے تالیاں بجانا دیدنی ہے اور اس چیز کا عکاس ہے کے سدھار لانے کے لیے کیا جانا والا کام مروب اور لا ئقِ تحسین ہے درحقیقت بلال یسین محکمہ حوراک نہیں چلا رہے بلکہ وزیرِاعلیٰ پنجاب اسے خوش اسلوبی سے خود چلا رہے ہیں ۔تمام ریستورن کے معیار کو پرکھنے کے بعد ان کی درجہ بندی فوڈ اتھارٹی کا عزم ہے سب سے شاندار پہلو یہ ہے کہ عملدرآمد بہت جانبدار ہے۔میری معلمہ عائشہ اشرف کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے عوام میں عرفان اجاگر کیا کہ وہ دیکھیں کے بازار سے جو وہ کھا رہے ہیں کیا وہ تناول کرنے کے قابل ہے یا یہ بیماریوں کو دعوت دینا ہے؟۔معمولی تحصیلوں میں چھاپے تومارے جاتے ہیں مگر سیرحاصل نتائج نہیں نکلتے اور توجہ نہ دینے کی وجہ سے بے ضمیر لوگ انسانی صحت کو زہر کھلانے سے باز نہیں آتے لالچ ان کے ذہنوں میں سرائیت کرچکی ہے اس لیے چھوٹے ضلعوں میں بھی سخت کاروائی کی شروعات بہت ضروری ہے۔لاہور کی یونیورسٹیوں کے کیفے ایک دفعہ سِیل کئے گئے اور جب دوبارہ چیک کیا گیا تو اُسی مکدر ماحول میں طلباء کو پکوان بنا کر مہنگے داموں بیچے جارہے تھے جس پر فوڈ اتھارٹی نے انہیں ہفتے بھر کے لیے سِیل کردیا اور آئندہ معیار کے حوالے سے مستقل چیکنک جاری رکھنے کا کہا ۔معیاری کھابے عوام تک پہنچیں اس لیے فوڈ اتھارٹی اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے وفاق کی فوڈ اتھارٹی بھی حرکت میں آ چکی ہے اور بڑے بڑے سیٹھ صاحبان کے طعام خانہ جات سِیل کردئیے گئے اور بھاری جرمانہ بھی کیا گیا۔قصابوں کی بے ضمیری سے تو لوگ واقف ہیں ہی مگر جب سے گوشت کو مبینہ طور پر حرام جانور کا قرار دیا گیا ہے تب سے عوام گوشت سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں۔لاہور کے وہ اشخاص جن کی خوراک کا اہم حصہ گوشت تھا وہ ان شکوک و شبہات کی بنا ء پر اسے اپنی خوراک سے نکالنے پر مجبور ہیں جبکہ یہ محض افواہیں ہیں جنہیں میڈیا نشر کرتا رہا ہے ،مضرِ صحت گوشت ضرور پکڑا گیا جس پر اس کے ہولڈر کے خلاف شدید ایکشن لیا گیا اور مزید پکڑدہکڑ ہونی چاہیے تاکہ عوام کو صحت بخش کھانا میسر آسکے جو غذائیت سے بھرپور ہو ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy