جہالت کے اندھیروں سے روشنی کی کرن تک

Published on November 3, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 419)      No Comments

اسلام سے پہلے جب ہر سو جہالت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ انسانی زندگی درندگی بنRizwan Peshawri گئی تھی نظم و ضبط ، تہذیب و تمدن نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ ظلم کا دور دورہ تھا انسان ایک خوفناک سانپ بن کر جب چاہتا کسی دوسرے انسان کو ڈس لیتا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ غرض ایک عقلمند شخص اس غیر مہذب زندگی کو ایک عذاب کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتا تھا۔ تو جہاں ہر کوئی متاثر تھا وہاں خواتین بھی خاص طور پر ظلم کی چکی میں پستی چلی جا رہی تھیں۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا خواتین کی حیثیت کچھ اس طرح تھی کہ وہ انسانی ڈھانچہ میں مردوں کی خواہشات کی تکمیل کی ایک تصویر تھی ۔ اسے کوئی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کہنے والا نہیں تھا۔ لیکن اسلام کی روشنیوں نے جہالت کی تاریکیوں کا صفایا کردیا۔اندھیرے مٹتے چلے گئے۔جہاں ہر شخص نے سُکھ کا سانس لینا شروع کیا وہاں خواتین کو وہ مقام ملا وہ عزت ملی وہ احترام ملا جس کا کوئی اس سے پہلے تصور تک نہیں کر سکتا تھا ۔ اسلام نے خواتین کو ظلم کی وادی سے نکال کر اسلام کی دہلیز پر بٹھا کر اسکے باقاعدہ حقوق متعین کیے۔ اسے بازاروں میں، گلیوں کوچوں میں جسم فروشی اور مردوں کی آنکھوں کی زینت بننے کے بجائے چاردیواری کی عزت بخشی۔ اسے ماں، بیٹی ، بہن اور بیوی جیسے خوبصورت اور اچھے اچھے ناموں سے پکارا جانے لگا۔ اسلام ہی نے مردوں کو حکم دیا کہ خاتون کو ہاتھ لگانا تو درکنار نظروں سے دیکھنا بھی نھیں بلکہ نظریں جھکانے کا حکم دیا تاکہ خاتون کی عزت پامال نہ ہو اور یہ اسلام ہی ہے کہ جس نے خاتون موٹی چارد اوڑھنے کی پابند بنادی تاکہ اس کی عزت کے ساتھ کوئی نہ کھیلے۔ اب جب اسلام نے خواتین کو اتنا عظیم مقام دیا ظلم کی پستی سے نکال کر عروج اور ترقی کے بلند راستوں پر گامز ن کیا تو ان خواتین کی بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ وہ مسؤلیت کے احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھائیں تاکہ اسلامی معاشرہ نہ صرف برقرار رہے بلکہ مزید استحکام پیدا ہوجائے۔ اس موضوع کے تحت خواتین کی ان ذمہ داریوں کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ذکر ہوگا کہ اگر ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھائیں گی تو کیا مثبت نتائج برآمد ہونگے اور کوتاہی کی صورت میں کیا منفی اثرات پڑیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ خاتون کو اس کا وہ عظیم مقام تب ملے گا جب وہ اسلام کے ان رہنما اصول کے تحت زندگی گزارے۔سب سے پہلی ذمہ داری خاتون کی یہ بنتی ہے کہ وہ اپنی تربیت اور اصلاح کرے دینی علوم سے اپنے آپ کو آراستہ کریں اپنے عقیدے پر محنت کرے ، خواتین میں مادہ انفعال وافر مقدار میں پایا جاتا ہے مادہ انفعال سے مراد ہے جلدی اثر قبول کرنا ،اس لیے خواتین کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر جاہل پیروں کی جال میں پھنس جاتی ہیں۔ مُردوں سے سوال کرنا ،زیارتوں پر جا کر بدعت و شرک کا شکار ہونا ،اس قسم کی برائیاں بھی ان میں اکثر پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلا کام اپنی اصلاح کی فکر کرنا، بالخصوص ایمان و یقین کی درستگی و اعمال خداوندی پر خود کو قائم رکھنا۔ دوسرے درجے میں اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا کیونکہ اس کی گود میں جو بچے ہیں یہ کل کے باپ ہیں۔ معاشرہ اس طرح کے بچوں سے مل کر بنتا ہے۔ اگر کہیں اولاد ماں کی تربیت کے زیور سے آراستہ ہو تو کل معاشرے کو تعمیری ذہن کے لوگ ملیں گے ۔ لہٰذا بچوں کی تربیت میں ماں کا سب سے پہلا اور اہم کردار ہے تو خاتون کی ذمہ داریوں میں سے ایک بہت اہم اور باریک ذمہ داری بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں پر والدین کا رنگ بہت جلدی چڑھتا ہے۔ خاص طور پر ماں کا رنگ۔ اگر ماں اسلامی رنگ سے رنگی ہوئی ہوگی تو لازماً اس کا بچہ بھی اللہ سے ڈرنے والا، احکامات پر چلنے والا بنے گا ورنہ اکثر بچے گالیاں دیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ والدین گھر میں بات بات پر گالیاں دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ تو یہ بچے ان سے سیکھ کر معاشرے کو تحفہ کے طور پر گالیاں دیتے ہیں کیوں کہ ان کو ماں کی تربیت سے گالیوں کے سوا اور کچھ ملا نہیں ۔ پیالہ میں جو چیز رکھی جاتی ہے وہی چیز باہر نکلتی ہے۔ بچے کا ذہن بھی ظرف کی طرح ہے اگراس کو سنوارا گیا اچھی طرح ذہن سازی کی گئی اور اس کا مظروف مثبت تھا تو اس ذہن سے باہر نکلنے والی چیز بھی مثبت ہوگی۔ اس ذہن سے اچھی سوچ تعمیری فیصلہ اور اصلاحی امور نکلیں گے جو باہر معاشرہ میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔
تیسری بڑی ذمہ داری خواتین کی یہ بنتی ہے کہ وہ اپنے صنفِ نازک مردوں پر قیاس نہ کریں۔ مردوں کا دائرہ بہت وسیع ہے مردوں کی فطرت کچھ اس طرح ہے کہ وہ ہر شعبہ زندگی میں چل سکتے ہیں۔ مرد سخت ہوتے ہیں جسم کے اعتبار سے بھی اور دل کے اعتبار سے بھی ۔ بنانے والے نے دونوں کی بناوٹ اور دائرۂ کار کو الگ الگ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے احکامات میں بھی فرق ہے۔ اللہ پاک نے وہ حکم خاتون کو نہیں دیا جو اس کے بس سے باہر ہے ۔کیونکہ بنانے والا اس کی بناوٹ اور حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے بعض اہم امور میں خواتین کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ سخت گرمی اور سخت سردی میں مسجد میں جا کر باجماعت نماز پڑھنے سے خواتین مستثنیٰ ہیں۔ شدید گرمی میں مردوں کو کاروبار کرنے کا حکم ہے کیونکہ وہ گھر نان و نفقہ لانے کے ذمہ دار ہیں۔لیکن خاتون گھر میں بچوں کی تربیت، خاوند کے مال کے درست استعمال اور گھریلو اندرونی معاملات کو درست طریقہ سے نمٹانے پر مامور کی گئی ہے۔ چونکہ گھر کے اندر تدبیر منزل کے ڈھیر سارے مسائل کا تعلق خاتون سے ہے۔ اور یہ خاتون ہی ان مسائل و معاملات کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے اور ان کا بہتر حل نکال سکتی ہیں۔ اور اس لیے بھی صنفِ نازک کا گھر سے بِلا ضرورت باہر رہنا اس کی فطرت اصلی کے خلاف ہے۔ فرمایا ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘ کہ اے مسلمان خواتین! آپ گھر کے اندر قرار پکڑیں اور اسلام سے پہلے جہالت کے اندھیروں میں ڈھکی ہوئی تنگ نظر تنگ خیال اور تنگ سوچ خواتین کی طرح بیباک ہو کر باہر نہ پھریں البتہ ضرورت کا دائرأ کار اس سے مستثنیٰ ہے۔ انسان پر مختلف احوال آتے ہیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات نان نفقہ کی ذمہ داری خاتون کے سر پر آجاتی ہے۔ بعض اوقات ایک ماہر خاتون ڈاکٹر باہر معاشرہ میں خواتین کی خدمت کرتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تب جائز ہوگا کہ شریعت کے دائرہ میں رہیں بہرحال یہ بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ خواتین بازار کی زینت بن کر گھومنے پھرنے کیلئے دنیا میں نہیں آئیں، بلکہ ایسا کرنا خلاف الاصل اور خلاف الفطرت ہے۔ ضرورت کے درجے میں شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے نکلنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب آپ ہی ذرا سوچیں: کہ موجودہ دور میں معاشرے کے بگاڑ کا ذمہ دار کونسا طبقہ ہے ۔ من حیث المجموع نہ سہی مگر اس بگاڑ کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ خواتین ہی کے کندھوں پر آکر پڑتا ہے۔ قرآن مجید میں خواتین کے متعلق اللہ پاک نے فرمایا کہ’’ لتسکنو الیھا ‘‘ تاکہ تم کاروبار وغیرہ سے فارغ ہو کر جب تھکا ماندہ گھر واپس لوٹتے ہو تو اپنی بیویوں کی خوش مزاجی اور اس کا خوشگوار موڈ میں استقبال آپ کے سکون کو معاد کرتا ہے۔ یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ خاتون کا اصل ٹھکانہ گھر کی زندگی ہے خاوند کے لئے گھر کی اندرونی زندگی میں چار چاند لگانا ہی اس کا اصل کام ہے۔ اب بلا ضرورت قدرتی قانون کے خلاف چلنے سے معاشرتی زندگی میں فساد ضرور پیدا ہوگا۔ اس گھر سے اسلامی معاشرے کو تعمیری ذہن کے افراد ملیں اس کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بڑے لوگوں کے بننے میں اصل کردار ان کی ماں کا ہے۔ ’’ عبدالقادر جیلانیؒ ‘‘ کی تربیت کا مدرسہ اس کی ماں تھی۔ جس گھر میں ماں بچوں کی دیکھ بھال کیلئے نہ ہو ان بچوں کی بربادی کلیۃً نہ سہی لیکن اکثر یقینی ہوتی ہے۔ تو گویا ان بچوں کی عدم تربیت اور بگاڑ کی ذمہ دار وہ روشن خیال ماں ہے۔ جس نے یورپ اور شیطان کو خوش کرنے کیلئے اپنے بچوں کو عظیم الشان مستقبل سے محروم کیا یہاں ایک لفظ بار بار قلم کی نوک سے گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ ہے ’’ضرورت‘‘ ،ہمیں یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ ضرورت کیا ہے؟ ضرورت کی حقیقت کیا ہے؟ ضرورت کا دائرہ کیا ہے؟ ورنہ ضرورت کی قید لگا کر ہر خاتون صبح سے لے کر شام تک بازار میں اپنے حُسن کا مظاہرہ کرے گی اور بہانہ یہ کریگی کہ میں کسی ضرورت سے گئی تھی یا مجھے جانا تو نہیں چاہیے تھا لیکن مجبوری تھی ضرورت تھی ہمیں ضرورت کی حقیقت بھی معلوم کرنی چاہیے۔ جہاں کہیں خواتین ضرورت کے درجے میں گھر سے باہرنکلیں بھی تو علماء سے مشورہ ضرور کریں اور علماء سے یہ بات پوچھیں کہ کیا واقعی یہ ضرورت ہے یا نہیں؟انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، خواتین خاص طور پر جھوٹ، غیبت ، چغل خوری، بے حیائی اور فحاشی سے اجتناب کریں۔ ایشیائی خواتین کی روایت کچھ اس طرح چلی آرہی ہے کہ اکثر و بیشتر لڑائیاں جھگڑے فساد ان کی مرہونِ منت ہیں ۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر دشمنی کا راستہ کھلواتی ہیں پھر عرصہ دراز تک یہ دشمنیاں قائم رہتی ہیں اور خاندانوں کے خاندان برباد ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی دشمنیوں میں کلیدی کردار عام طور پرخواتین کا ہوا کرتا ہے اپنی اولاد، خاوند اور خاندان کو اگر اس قسم کی دشمنیوں سے خواتین بچانا چاہتی ہیں تو بات بات پر شکایت نہ لگائیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں ورنہ ’’اپنے ہی گھر کو آگ لگی اپنے چراغ سے ‘‘ والی بات ہو جائے گی۔ ایک خاتون اپنی اصلاح کرکے تعمیری راہ پر چلتے ہوئے معاشرے میں بہت اھم کام کرسکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر خاتون اصلاحی امور سے غافل رہ کر بے باکی کا مظاہرہ کرے تو معاشرے کیلئے بہت سے خطرات پیدا کرسکتی ہے۔ اس لیے خواتین کی اصلاح اورتربیت مِن جانبین ضروری ہے ایک طرف مرد حضرات ان کی تربیت پر توجہ دیں تو دوسری طرف خواتین خود اپنی اصلاح کی فکر کریں پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ خواتین اپنی اصلاح کیسے کریں؟ تو اس کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً اپنا تعلق نیک اور مذہبی خواتین سے قائم رکھیں۔ صحابیات کی زندگی کا مطالعہ اپنا دستور بنائیں ’’حکایات صحابہ‘‘ اور ’’حیاتِ صحابہ ‘‘ جیسی کتابوں کا مطالعہ کرتی رہیں مدرسۃ البنات کی معلمات اور طالبات سے تعلق جوڑیں اور ان سے رابطہ رکھیں دینی امور میں خصوصاً اور دینوی امور میں بھی استفادہ کو یقینی بنائیں ۔ ان مذکورہ طرق کے علاوہ ایک انتہائی اہم ذریعہ اصلاح دعوت و تبلیغ ہے۔ خاتون اپنے محرم کے ہمراہ کچھ دنوں کیلئے تبلیغی جماعت کی مستورات سیکشن میں نکلے تو بہت زیادہ روحانی فائدہ ملتا ہے اور بچوں کی تربیت کی ایک مسلسل فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔ عملی طور پر اعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ موجودہ دور میں آخر الذکر طریقہ سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ تھوڑے وقت میں زیادہ تبدیلی لانے والا مجرب طریقہ ہے علاوہ ازیں اہم دینی مسائل معلوم کرنے کیلئے ملک کے جید اور مستند علماء کرام سے رابطہ کریں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes