سب زندہ باد۔۔۔ پر عوام؟

Published on November 26, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 345)      No Comments

 تحریر:۔شفقت اللہ
انگریز دور کی بات ہے کہ ایک نواب تھا جو کئی ایکڑ اراضی کا مالک تھا ۔اسی جگہ ایک بیوہ عورت بھی رہتی تھی جو کچھ زمین کے ٹکڑے کی مالک تھی لیکن نواب کو اسکی زمین پسند تھی ۔نواب نے اپنے ہتھ NewUNNکنڈے استعمال کرتے ہوئے اس عورت کی زمین پر قبضہ کر لیا جس پر اس عورت نے عدالت سے رجوع کیا ۔ عدالت نے دونوں کی باتیں سننے کے بعد فیصلہ اس عورت کے حق میں کر دیا اورنواب کو حکم دیا کہ وہ عورت کی زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے کی ہمت نہ کرے اگر کیا تو آپ پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی جائے گی،لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد اس نواب نے دوبارہ عورت کی زمین پر قبضہ کر لیا ۔عورت نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جس میں نواب کو بلایا گیا اور اس پرتوہین عدالت کی فرد جرم عائد کر دی ۔لیکن نواب نے عدالت سے ایک درخواست کی کہ جج صاحب میری ایک خواہش ہے کہ ؛کلو؛ میری بہت خدمت کرتا ہے اور شروع سے ہی میرے ساتھ رہا ہے اسکو بھی میرے ساتھ جیل بھیج دیں ۔ جج صاحب نے جواب دیا کہ کلو نے تو کوئی جرم نہیں کیا اس لئے اس پر فرد جرم عائدنہیں کیا جا سکتا !! نواب نے کہا کہ آپ کا کہنے کا مقصد ہے کہ میں نے توہین عدالت کا جرم کیا ہے تو یہ بھی جرم کرے تو میرے ساتھ جا سکتا ہے؟؟ اس کے بعد نواب نے کلو کو کہا کہ ؛چل بھئی کلواٹھا دھوتی اور موُت دے صاحب کے سامنے؛ نواب کا کہنا تھا کہ کلو نے بناکچھ سوچے ہی جج صاحب کے سامنے پیشاب کر دیا جس کی وجہ سے کلو بھی توہین عدالے کا مرتکب ہوا اور اس پر بھی فرد جرم عائد ہو گئی ۔۔۔۔ کچھ دنوں قبل دھرنوں کا تماشا ٹی وی پر دکھایا جانے لگاٹی وی چینلزکی آپس میں دوڑ لگی ہوئی تھی اور مقابلہ جاری تھا کہ سب سے پہلے کوریج اور سب سے زیادہ کوریج کون دے رہا ہے۔بے شمار پروگرامز کئے گئے اور ٹی وہ چینلز میں بریکنگ نیوز او رٹاک شوز میں ایسی بحث کی گئیں کہ جیسے پاکستان پھر سے آزاد ہونے والا ہے ۔ مگر کس سے؟؟؟؟ میں اس دن سمجھا کہ ہم آج تک کبھی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے ہیں پہلے ہمارے بزرگ انگریزوں کی غلامی کیا کرتے تھے اور اب آزاد ملک میں رہنے کے باوجود غلام قوم کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ۔اس قوم کی حالت ذرا بھی کلو سے مختلف نہیں آج بھی میرے جیسے ایسے نوجوان موجود ہیں جو نوابوں کے کہنے پر بلا سوچے سمجھے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔آ پ پیپلز پارٹی کو ہی دیکھ لیں پچھلے دور میں اس کی حکومت میں کس طرح لوگوں کا خون نچوڑا گیا ،مہنگائی پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر تھی ۔لوڈ شیڈنگ بجلی و گیس اور اوپر سے بے روزگاری ہر ادارے کی حالت ڈوبنے جیسی ہو گئی ،بے نظیر کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملا آج تک ،ان کی کرپشن ہر شخص کو پتہ ہے کوئی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن ،،پھر بھی بھٹو زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں ،،!!! مسلم لیگ ن کی حکومت نے سر عام مشہورو معروف کارنامے کئے جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن جس میں نہتے بے گناہ شہید کئے گئے اس کے قاتل کہا ں ہیں ؟کیا حکومت اتنی بے کس ہے کہ وہ ان مجرموں کو پکڑنے سے قاصر ہے؟ ،فیصل آباد میں بلدیاتی انتخابات میں فائرنگ کی وجہ سے نوجوان شہید ہو گیا لیکن آج تک کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی،بے روزگاری جوں کی توں ہے ،فیسکو کی نجکاری کر دی گئی ہے جسکے خلاف آئے دن فیسکو کے احتجاج رہتے ہیں ،ٹیچرز سال بھر میں چھ ماہ ریلیوں میں اور احتجاجوں میں مصروف رہے لیکن پھر بھی ،،ان کا زندہ آباد کے نعروں سے استقبال کیا جا تا ہے،،۔۔۔مذہبی جماعتیں سیاسی جماعتیں بن گئیں ہیں ،کالعدم تنظیموں کے لوگ دندناتے پھرتے ہیں کئی لوگوں پر مختلف دہشتگردی کے مقدمات درج ہیں لیکن وہ ابھی بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور ہم لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں خود کش بم حملے اور دھماکے انہیں لوگوں کی پیداوار ہیں لیکن اسکے با وجود عقل حقیقتوں کو تسلیم کرنے کیلئے راضی نہیں ہوتی اور یہی لوگ ممبر رسول پر کھڑے ہو کر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں ،یہ سنی وہ شیعہ لوگوں کو تفرقے میں ڈال دیا ہے پھر بھی یہ لوگ زندہ آباد ہیں،پاکستان میں ایسے لوگ بھی زندہ آباد ہیں جنہوں نے کبھی بھی پاکستان کی بقا ء کیلئے تگ و دو نہیں کی سوائے اس کے کہ انکی جیبیں کیسے بھری رہیں ، ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،بلیک میلنگ اور مارا ماری ان لوگوں کا عام مشغلہ ہے ،جب قانون اور پاک فوج نے ان پر گھیرا تنگ کیا تو انہیں دھمکی دے دی کہ ہم انڈین یجنسی راء سے اور انڈین آرمی سے مدد مانگیں اور پاکستان سے لڑائی کریں گے سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص جو سات سمندر پار بیٹھا ہے اور ٹیلی فون پر صرف بات کرتا ہے جسکیلئے اخراجات بھی عوام خود برداشت کرتی ہے ،بھتہ دینا بھی گوارا کرتی ہے ،اپنے بھائیوں کی لاشیں بھی اٹھاتی ہے اور زیادہ لوگ جو اس شخص کو جانتے تک نہیں اس سے کبھی ملے نہیں پھر بھی ووٹ اسے ہی دیتی ہے اور ایم کیو ایم زندہ آباد کے نعرے بھی لگاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے دھرنوں کا اعلان کیا تو بہت بڑی تعداد میں قوم اسکی ایک آواز پر اسلام آباد جمع ہو گئی کئی گانوں سے محفلوں کا اہتمام کیا گیا اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا قوم صرف اس امید کے ساتھ اکٹھی ہوئی کہ انہیں بادشاہیت والی ریاست کی جگہ جمہوری ریاست ملے گی ہر غریب کو اسکا حق ملے گا انہیں تمام ظالموں کے ظلم سے بچائے گا ،حکومت نے ان دھرنوں کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھ کنڈے استعمال کئے ۔دھرنوں میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر صرف پارٹی کی مقبولیت بڑھائی گئی اور عوام کو آگ میں جھونک دیا گیا پی ٹی آئی نام تو ایک نئی جماعت کا تھالیکن افسوس چہرے وہی تھے جو پہلے ہی اس عوام کا خون چوس کر پروان چڑھے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دھرنوں میں سب سے بڑی تعداد ہمارے ملک کے نوجوانوں کی تھی جو قوم کے معمار ہیں لیکن وہاں ناچ گانوں اور چند ایک جوش بھری تقریروں سے محظوظ ہو کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہے۔جس مقصد کیلئے پی ٹی آئی نے اتنا بڑا ڈرامہ رچایا جب اسکے فیصلے کی باری آئی تو پی ٹی آئی عدلیہ میں ثبوت پیش نہ کر سکی مطلب کوئی بھی ہنگامہ کھڑا کر دو کام کرنے کی ضرورت نہیں نام خود ہی بن جائے گا،دور بیرون ملکوں سے لوگوں نے شرکت کی ملک کی مائیں بہنیں سبھی مردوں کی شانہ بشانہ شریک تھیں اتنا اندھا بھروسا تھا کہ لوگ اپنا سازو سامان بھی ساتھ لے گئے کہ شاید ہماری وجہ سے پاکستان میں تبدیلی آئے اور ہمارے بعد کی جنریشن کیلئے پاکستان میں زندگی آسان ہو جائے لیکن یہ سب ہنگامہ برپا کیا گیا اور اس میں عوام کو دل کی اتھاہ گہرایوں سے گھسیٹا گیا لیکن پاکستان کے نوجوان آج بھی ،،تبدیلی کے ساتھ پی ٹی آئی زندہ آباد کے نعرے بلند کرتی ہے ،،!!!!پاکستان ایک سونے کی چڑیا ہے جسے سبھی نے باری باری کھایا ہے اور معافی نہیں دی لیکن یہ ہے کہ ختم ہونے کانام بھی نہیں لیتا ۔ہر حکومت نے پاکستان کو قرضے میں ڈوبویا ہے پہلے دن سے لے کر آج تک ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قرض کبھی نہیں اترا اور اوپر سے نئی آنے والی ہر حکومت نے قرضے لئے ہیں ،اور اس سارے قرضے میں ڈوبی صرف عوام ہے ان لوگوں نے اپنے کالے دھن کو سفید بنانے کیلئے منی لانڈرنگ کی جس کے کئی کیسز ابھی بھی زیر سماعت ہیں لیکن پھر بھی عوام ان کا استقبال زندہ باد کے نعروں سے کرتی ہے۔پوری ڈیمو کریسی میں جتنے بھی بڑے سیاستدان ہیں سبھی ڈبل نیشنیلٹی ہولڈر ہیں اور کسی بھی ملک کی نیشنیلٹی لینے کا مقصد اس بات کا حلف دینا ہے کہ وہ اس ملک کیلئے ہر حال میں وفادار رہے گا اور ملک کی سالمیت کی دل و جان سے حفاظت کرے گا ۔اب یہ دیکھیں کہ کتنے لوگ جو اس وقت پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ کوئی برطانیہ ،کوئی امریکہ ،کوئی سعودیہ تو کوئی دبئی اسی طرح مختلف ممالک کے گرین کارڈز ہولڈر ہیں ۔آئے دن دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی قوتیں پاکستان میں جنگ کو مسلط کئے رکھتے ہیں ،کبھی دہشتگردی کی جنگ تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کی ،کبھی سیاست کی تو کبھی بھوک کی جنگ اور پاکستان کی عوام ہے کہ وہ لڑتے لڑتے کبھی ہمت نہیں ہاری اور آج تک لڑ رہی ہے ۔پچھلی دو صدیوں سے یہ لوگ مسلسل خراسان میں جنگ برپا کئے ہوئے ہیں کبھی افغانستان میں تو کبھی عراق میں اور کبھی شام میں تو کبھی پاکستان میں ۔افغانستان میں جنگ کے دوران مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد کی ۔بڑے بڑے دما غ فیل کر دیئے ،پچاس ہزار کے قریب امریکن فوجی جن میں ڈاکٹر ،برگیڈیر اور دیگر بڑے بڑے عہدوں پر فائز فوجی شامل تھے نے خود کشیاں کر لیں کہ یہاں سے زندہ نکلنا نا ممکن ہے ۔پاکستان کی قوم تو اس خواب خرگوش میں گم ہے کہ جیسے ماں نے بچے کو لوری میں تھپ کر سلا دیا ہو۔سوچنے کی بات ہے کہ جن لوگوں کا یہ اعتبار نہیں کہ وہ وقت آنے پرکس ملک کا ساتھ دیں گے تو ان پر ہم اعتماد کیوں کرتے ہیں جب بھی سیاستدانوں کے احتساب کی بات کی جاتی اور سوئس بینکوں سے رقوم کو پاکستان میں لانے کی بات کی جاتی ہو تو اس پر عملدر آمد کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کیا یہ معاملات ملک کی سالمیت کیلئے ضروری نہیں ہیں؟ ملک میں پیسہ آنے سے معیشت مستحکم نہیں ہوگی؟ لوگوں کو روزگار نہیں ملے گا ؟پاکستان میں غربت کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ڈائریکٹ ٹیکس اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا ہے جو کہ بل کل ہی غریب لوگوں کیلئے بہت بڑا بوجھ ہے ان ڈائریکٹ ٹیکس جس کی شرح پاکستان میں بہت زیادہ ہے ڈائریکٹ ٹیکس کے مقابلے میں جسکی وجہ سے امیر اور بڑے بڑے کاروباری لوگ بہت زیادہ مستفید ہوتے ہیں کہ ٹیکس کی شرح کم ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی پر بہت کم ٹیکس لاگو ہوتا ہے جبکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس جوہر اس شخص کو ادا کرنا پڑتا ہے جو چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی خریدتا ہے اور اس کا زیادہ وزن ڈائریکٹ غریب عوام پر پڑتا ہے جو کہ عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے ۔معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان تو جیسے کبھی آزاد ہی نہیں ہوا ہم آج بھی انگریزوں کی غلامی کر رہے ہیں ہر اعتبار سے ۔جیسے آج سے 68 سال قبل انگریزوں نے اس سر زمین کو اپنے منظور نظر وڈیروں کو تحفہ دے دیا ہو وفا کرنے کیلئے اور وہی وڈیرے آج بھی ہم پر ویسے ہی مسلط ہیں ۔ ان معاملات کا حل اسی وقت ممکن ہے کہ جب حکومت میں کوئی ایسا شخص سامنے آئے جس نے غریب کے ساتھ عمر گزاری ہو جو اس دکھیاری عوام کا دکھ درد سمجھ سکے اور اسے زندہ باد بھی کہہ سکے کیونکہ عوام نے تو سبھی کو زندہ باد کی دعائیں دیں ہیں لیکن یہ لوگ عوام کو ہی مٹانے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور اگر یہ اپنی اس مراد میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بعد میں انہیں زندہ باد کہنے والے نہیں بچیں گے۔ اور اسکیلئے عوام کو وقت کی ضرورت کو سمجھنا چاہیئے، ایک بہت بڑے دانشورکا قول ہے کہ ،،غلام قوم کے معیار بھی بہت عجیب ہوتے ہیں،شریف کو بے وقوف ،مکار کو چالاک،قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں ،، اور ہماری سوچ اس اقوال سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔عوام زندہ باد،پاکستان پائیندہ باد۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy