استعفے نہیں دینا چاہیے

Published on April 25, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 443)      No Comments

index
تحریر ۔۔۔ پرویز احمد ہاشمی
سب سے پہلے سانحہ اقبال پارک کے شہیدوں کو سلام پیش کرتا ہوں ،جنہوں نے اس قوم کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے ان بزدل سفاک اور انسانیت دشمن دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا اس سانحہ میں زخمی ہونے والے ایک ایک پاکستانی کے زخموں سے چور جسموں پر کئی بہاریں قربان۔ آج مجھے یقین ہو چلا ہے کہ محبت وطن و جذبہ شہادت سے سرشار اور جہاد فی سبیل اللہ سے لیس پاک فوج اور اسکی پشت پر کھڑی ہوئی 20کروڑ غیورپاکستانی عوام ایک دن ضرور ان ظالم بھیڑیوں کو شکست دیگی انشاء اللہ ۔
اب چلتے ہیں اس تازہ مسئلے کی جانب جسے اس وقت پاناما لیکس کے نام سے بڑی شدومد کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے ،اس پاناما لیکس نے بڑے بڑوں کا بہت کچھ لیک کردیا ہے اور اب تو یہ خبر باقاعدہ ایک عفریت اور بھوت کا روپ دھارکر بڑے نامی گرامی دھنوانوں کی نیند اڑائے ہوئے ہے ۔یہ واحد مسئلہ ہے جو نہ تو کسی ایک ملک تک محدود ہے نہ ہی کسی براعظم تک یہ مسئلہ نہ تو یورپ کے چکا چوند بازاروں تک محدود ہے نہ ہی ایشیاء کے لہلہاتے کھیتوں تک نہ ہی افریقہ کے جنگلوں اور ریگستانوں تک نہ ہی انٹارکٹکا کے برف زاروں تک بس یک بہ جنبش ابرو آنکھ جھپکنے کی دیر لگی ادھر یہ خبر کہ کئی ملکوں کے سربراہوں اور امیر زاروں نے اپنی دولت کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کیلئے دنیا کے ایک خاص مقام پانامہ میں آف شورکمپنیوں میں چھپا رکی رکھی ہے سامنے آئی ادھر لندن سے لے کر ماسکو تک ایک تہلکہ مچ گیا
اس سکینڈل نے بیک وقت بہت سے سربراہان ممالک سیاستدانوں اورکاروباری شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔جس کا چین ری ایکشن یہ ہو کہ چند ایک ممالک کے سربراہان نے اپنی پوزیشنوں سے استفعی دے دیا کی ممالک میں اعلی سطحی پر تحقیقات شروع ہو گیءں کئی ممالک میں ان لوگوں کے پیچھے ان کی ایجنسیاں ڈنڈا اٹھا کر پڑگیءں ۔آئسس لینڈ کے وزرائے اعظم استعفی دے گئے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دہاں سپریم کورٹ تحقیقات کررہی ہے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے وہاں کی عوام استعفی کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ پاکستان میں بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان کا نام سامنے آیا ہے جبکہ یہ بات وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز ایک ٹی وی شو میں آکر تسلیم بھی کر چکے ہیں اور وہ بھی اس خبر کے منظر عام پر آنے سے کئی دن پہلے البتہ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نے فی الفور سرکاری ٹی وی پر آکر اس بات کو تسلیم کیا اور کہا کہ ان کے بچے صاحب رائے بالغ اور آزاد شہری ہیں اور اپنا کا روبار جہاں چاہیں کرسکتے ہیں اور اس میں انکا کوئی قصور نہیں ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس سکینڈل کے متعلق تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کے لئے خط لکھنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف وزیر اعظم کو ٹف ٹائم دینے کیلئے میدان میں آگئی ہے اور وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے جبکہ باقی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے اس مطالبہ پر اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے ۔لیکن پی ٹی آئی اس معاملے پر انتہائی اقدام کرنے کو تیار ہے جوکسی بھی طرح موجود ہ حالات کے تناظر میں ملکی اور قومی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ یہ خالصتا ایک مالیاتی مسئلہ ہے ایک کاروباری طریقہ ہے پہلے تو اس بات پر سب لوگ متفق ہیں کہ آف شور کمپنیوں کا چلانا دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر قانونی نہیں سمجھا جاتا نہ ہی کسی ملک کا قانون اور نہ ہی کسی ملک کی کوئی عدالت بشمول عالمی عدالت انصاف آف شوکمپنی چلانے کے جرم کسی شخص کو سزائیں دے سکتی اور نہ آج تک کوئی سزا دے سکی ہے ۔جہاں تک آف شور کمپنیوں کے مطلب کی مجھے سمجھ آئی ہے کہ کسی بھی شخص کا اپنا کاروبار جائز لیکن خفیہ طریقے سے چلانا ہے
جہاں تک ٹیکس نہ دینے کی بات ہے تو اس معاملہ میں بھی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف قوانین میں کئی ممالک میں ٹیکس ادا نہ کرنا یا چھپانا سنگین جرم سمجھا جاتا ہے لیکن کئی ممالک میں ابھی تک یہ قانون عمل پذیر ہے اور کئی حکومتیں ٹیکس لینے کیلئے مختلف قسم کے ترلا پروگرام گاہے بگاہے تشکیل دیتی رہتی ہیں جیسا کہ آج کل ہمارے ملک میں ٹیکس ایمسنٹی سکیم شروع کی گئی ہے تاکہ کوئی شخص اپنی مرضی کی آمدنی ظاہر کرے اور مرضی کا ٹیکس دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آسکیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان کے تناظر میں یہ کوئی ایسی قابل مواخذہ بات نہیں ہے کہ ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے کسی کو جیل میں ڈال دیا جائے بلکہ یہاں تو اپنی مرضی سے ٹیکس دینے والے شخص کو حکومت باقاعدہ شکریہ ادا کرتی ہے اور جہاں تک شریف فیملی کی آمدن کا تعلق ہے تو یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس خاندان میں یہ دولت کئی عشرو ں کی محنت شاقہ سے حاصل کی ہے ان کے تما م کارو بار جائز اور قانونی ہیں ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی آج تک ان پر ناجائز ذرائع آمدن یا بدعنوانی اور کرپشن کا الزام نہیں لگا سکا تو پھر ہر کاروباری شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی دولت وہاں انویسٹ کرے جہاں اس کی دولت محفوظ ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمائے تاہم وہ کاروبارغیر قانونی اور غیر اخلاقی نہ ہو تو اس مسئلے کے تناظر میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات سیاسی عدم و استحکام تشد داور بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں ملک ترقی کے راستے پر رواں دواں ہے بدامنی پر قابو پایا جارہا ہے دہشت گردی دم توڑتی جارہی ہے ترقی کا پہیہ اپنی رفتار سے گھوم رہا ہے اور یہ سب سیاسی استحکام شبانہ رو ز محنت سچی لگن ،وطن کی محبت اور عوام کی خدمت کا پھل ہے اور اس بہترصورت حال کا کریڈٹ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بہر حال جاتا ہے جنکی خدمات تاریخی مثالی اور ناقابل فراموش ہیں ،،،،
تو ان حالات میں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ میاں نواز شریف کو استعفی نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو اور نکھارنا چاہیے تاکہ میرے ساتھ ساتھ تمام پاکستانیوں کا مستقبل روشن اور محفوظ ہوسکے

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme