ثقافت پذیری ۔۔۔۔ایک بڑھتا ہوا رجحان

Published on January 19, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 553)      No Comments

logo-1
مسلمان ہونے کی بنیاد ہے کہ ایک اللہ اور آخری نبی حضرت محمد ﷺپر ایمان لانا اور اس بات کی گواہی دینا ۔1947 ؁ ء میں اسی بنیاد پر اسلامی جمہوری پاکستان ایک الگ آزاد اسلامی ریاست کے طورپر معرض وجود میں آیا۔پاکستان دو لفظوں کا مجموعہ ہے پاک مطلب پاکیزگی اور ستان مطلب زمین سے ہیں ۔مولانا حفیظ جالندھری نے پاکستان کیلئے جو ترانہ لکھا ہے اس میں بھی اس بات کو واضح کیا گیا کہ یہ سر زمین پاک ہے۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔1857 ؁ء کی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کی حکومت پورے برصغیر پر پھیل چکی تھی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو غلامی کی زندگی گزارنا پڑ ی یہ صرف اس لئے کہ اب مسلمانوں میں وہ جوش و ولولہ ،بازوؤں میں طاقت اور دل میں پختہ یقینی نہیں رہ گئی تھی ۔برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی اکثریت تھی اور یہ دونوں قومیں یہاں ایک عرصے سے آباد تھیں لیکن پھر بھی ان کے درمیان مفاہمت پیدا نہ ہو سکی جسکی بڑی وجہ دو الگ ثقافتیں تھیں ۔مسلمانوں کے ہیرو آخری نبی الزماں محمد الرسول اللہ ﷺ تھے اور ان کی ہر بات دین سے شروع ہو کر دین پر ہی ختم ہوتی تھی۔غلامی کے اس دور میں جب ہندوبنیوں اور انگریز پرست لوگوں کا ظلم حد سے تجاوز کرتا گیا تو اسنے بغاوت کو جنم دیا جسکی کامیابی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں ہمیں ملی ۔نظریہ پاکستان کے دو اہم نکات لسانیت اور قومیت کے دئے گئے جسکی وجہ سے انگریز بھی مسلمانوں کو ایک آزاد قوم تسلیم کرنے کیلئے مجبورہو گئے۔آزادی پاکستان کی خبر سن کر ہندو انتہا پسندوں نے سر عام مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ 10 لاکھ کے قریب لوگ شہید کر دئے گئے جبکہ لاپتہ افراد کا اعدادو شمار ہی موجو د نہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہمیں یہ قربانیاں بے مقصد سی نظر آتیں ہیں کہ جب ہم اپنے نوجوانوں کو مغربی ثقافت میں پنہاں دیکھتے ہیں ۔دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جس پردہ اور پختہ ایمانی اور مذہبی آزادی کیلئے اس ملک کیلئے جدو جہد کی گئی تھی آج اسی ملک کی بیٹیاں انگریزی لباس میں سجی نئی دلہن کے جیسی بازاروں میں پھرتی دکھائی دیتیں ہیں اور نوجوان ان پر فقرے کستے ہوئے سکھائی دیتے ہیں کہ جن پر وہ ناز کرتی ہیں ۔سر سید احمد خان جب انگریزی کی تعلیم لینے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں انگریزی کی تعلیم دینے لگے تو لوگوں نے ان پر طعنہ زنی کی اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا لیکن انہوں نے سمجھایا کہ انگریزی سیکھنے کا مقصد انگریز بننا نہیں ہے بلکہ ہمیں انگریزوں کو سمجھنے کیلئے ان کی زبان پر عبور حاصل کرنا ہو گا تو ہی ہم انہیں سمجھ سکیں گے اور ان کی سازشوں کا جواب دے سکیں گے لیکن اس نسل نے با لکل ہی غلط مطلب نکالا اور انگریزی سیکھ کر اسکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی بجائے ان کی ثقافت اپنا کر پاکستانیت سے دور ہو گئے ہیں ۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو پر امن اور ضابط اخلاق میں مکمل زندگی پر احاطہ کیئے ہوئے ہے یہ صبر اور استقامت کی ایسی قوت دیتا ہے کہ اس پر ایمان لانے والے دنیا کی ہر مصیبت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ 69 سال گزرنے کے بعد بھی دشمن لگا تار پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہے اور آئے دن نئے سے نئے ہتھ کنڈے استعمال کرنے کے با وجود یہ آج بھی ہمارا ملک قائم و دائم ہے۔لیکن نہ جانے یہ کس کی نظر لگ گئی ہے کہ آ ج ہمارے ملک میں ہر طرف بے سکونی ہے نو جواں نسل تباہ ہو رہی ہے آئے دن جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے نبی ﷺ اور ان کے بتائے ہوئے راستوں سے دور ہو گئے ہیں ۔ہم نے ان راستوں کا انتخاب کر لیا ہے کہ جسکی کوئی منزل نظر نہیں آتی ،ہم نے فانی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے کہ جسنے کبھی نہیں رہنا ،ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر شیطان کے بتائے راستوں میں زندگی کا سکون تلاش کرنا شروع کر دیا ہے۔یا د رکھو کہ اللہ ہمیشہ ایمان والوں کا ساتھ دیتا ہے کہ جب مسلمان پوری دنیا کی بلاؤں کا ڈر دل سے نکال کر خالص اللہ کا ڈر بسا لیتا ہے تو وہ کسی کے آگے جھکنا پسند نہیں کرتا اور حق بات کیلئے ڈٹ جاتا ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ انگریزوں نے افغانستان میں گھسنے کی کوشش کی تو ان کا کیا انجام ہوا ؟ عراق پر حملہ کیا تو منہ کی کھانی پڑی ؟ برصغیر پا ک و ہند پر دو صدیاں حکومت کرنے کے بعدبھی یہاں سے ذلیل ہو کر نکلے؟ لیکن پھر بھی ہم لوگ سبق نہیں سیکھتے۔یہ نسل اس بات کو کیوں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی ذات واحد ہے اور کوئی اسکا شریک نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ،وہ اس بات پر قادر ہے کہ اس نسل کو مٹا دے اور اس کی جگہ اور نسل لے آئے اور اس سے اپنا کام لے جیسا کہ اسنے پہلے نسلوں کے ساتھ کیا تھا۔دشمن نے جیتنے کیلئے ہتھیار پھینک کر ایک ایسی جنگ شروع کر رکھی ہے کہ جسنے اس ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔نوجوانوں اور بچوں میں انہوں نے میڈیا کے ذریعے اپنی ثقافت ایسے بھر دی ہے کہ اب تو انکو ہیرو بھی رام چندر اور ہنو مان ہی نظر آتے ہیں اور سلطان صلاح و الدین ایوبی کو صرف جنگجو سپہ سالار سمجھتے ہیں ۔ یہ سب صرف ہمارا اپنی ثقافت سے دور ہونے کا نتیجہ ہے کہ ہمارا حال آج سے 1500سال پہلے قوم جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی ،بات بات پر انسانیت کا قتل ،لڑکیوں کو زندہ درگور یا انکو مار دینا ،جھوٹ بولنا ،گنا ہ کر کے اس پر فخر محسوس کرنا ،سود لینا اور وعدہ خلافی کرنا سے بالکل بھی مختلف نظر نہیں آتی ۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلالت دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے اور خون کے آنسو روتا ہے کہ اتنے عظیم نبی کی امت آج ہر طرف پس رہی ہے ،لا چار اور بے بس ہو کر رہ گئی ہے ۔یہ سب عذاب ہمارے اندر مغربی ثقافت کے پنپنے کے عکاس ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ رب الجلیل اس ملک کو صدا اپنی حفاظت میں رکھے اور نوجوان مسلم کو زندہ تمنا دے اور ان کے سینوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرے۔آمین

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme