بابائے صحافت

Published on November 24, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 459)      No Comments

\"oooo
؂چڑھ جائے کٹ کے سرتیرا نیزے کی نوک
لیکن یزیدوں کی اطاعت نہ کرقبول
قیامِ پاکستان میں صرف چند افراد کی کاوشیں شامل نہیں بلکہ اس میں بے شمار جانوں کے نذرانے اور لاکھوں افراد کی جہد وجہد شامل ہے۔ تب جاکے ہمیں آزاد وطن نصیب ہوا ۔ ان میں ایک درخشاں اور معتبر نام مولانا ظفر علی خان کا ہے ۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سرمایہ حیات تھا ، ان کی نعتیں ان کے جذبے کی بھرپور ترجمان ہیں انہوں نے نعت کو ایک نیا لب و لہجہ اور منفرد اندازبیان دیا ۔ انہوں نے کہیں بھی شریعت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ آپ 27 نومبر 1875 کو وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ کے نواحی علاقے کرم آباد میں پیدا ہوئے ۔ خاندان کے بزرگوں نے نام خداد رکھا بعد میں کسی نے ظفر علی خان تجویز کیا ۔ آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے دادا اکرم الہی سے حاصل کی۔
اٹھارہ سال کی عمر میں آپ علی گڑھ کے ذہین اورفطین طلبا میں شمارے کئے جانے لگے ۔ بات یہاں تک پہنچی کہ سید احمد خان کو آپ کی شخصیت پر لب کشا ہونا پڑا ۔ آپ نے گریجوئیشن علی گڑھ یونیورسٹی سے کی ۔
مولانا ظفر علی خاں بیک وقت شعلہ بیان مقرر ، بے مثل نقاد ،اعلی درجے کے مترجم ،سیاسی رہنما ، صحافی اور شاعر تھے ۔ آپ کی صحافت سیاست کیلئے وقف تھی مگر شاعری کو انہوں نے مسلمانوں کی بیداری اور شعور کیلئے اپنایا ۔ ان کی تحریریں ملی وقومی اُمنگوں کی ترجمان ہیں ۔آپ کے والد مولوی سراج الدین نے 1903 کو اپنا اخبار \”زمیندار \” شروع کیا 1908 میں مولانا ظفر علی خان اس اخبار کی ادارت سنبھالی اور اسے پنجاب کا اہم ترین اخبار بنادیا ۔ اس اخبار نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اورشعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا آپ نے صحافت کو نئی جہتیں عطا کیں \”زمیندار\” اخبار کے وسائل اتنے محدود تھے کہ بعض اوقات عملے کوتنخواہ دینے کیلئے بھی پیسے نہ ہوتے تھے۔ اس دور میں زمیندار وہ پہلا اخبار تھا جس نے خبر رساں ایجنسیوں سے فائدہ حاصل کیا۔
اس زمانے مین اشاعت کا مرکز لاہور تھا اور تینوں بڑے اخبار \”پرتاب\” \”محراب \” اور \”دی بھارت\” ہندو مالک کے پاس تھے ۔ مولانا محمدعلی جوہرکا اخبار کامریڈ اور مولانا ظفر کا اخبار زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن کی اہمیت تحریکِ پاکستان میں مسلم ہے ۔ 1934 میں جب حکومت نے آپ کا اخبار بند کردیا تھا تو آپ نے ہمت نہ ہاری اور حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو احکامات واپس لینے پر مجبورکردیا ۔ اسی موقع پر لکھی گئی طویل نظم کے چند اشعار یہ ہیں
؂ زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند ، یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
تیری قدرت کاملہ کا یقین ،مجھے میرے پرودگار آگیا
آپ کے زبردست مقالات اور روح پرور نظموں نے عوام اخبار پڑھنے کا شعور پیدا کیا \”زمیندار کی اہمیت کا،اس کی شہرت کا ،اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اخبار سرحدی علاقے میں پہنچا تو پختون پٹھان ایک آنہ میں اخبار خریدتے اور دو آنہ معاوضہ دے کرپڑھواتے ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد مولانا ہندوستان واپسی پر آبائی علاقے کرم آباد (وزیر آباد) میں نظر بند کردیا گیا مگر ان کے ارادوں میں کمی نہ آئی اور آپ اس چٹان سے ٹکرا گئے جو آپ کو باطل محسوس ہوئی۔ مختلف اوقات میں مولانا کو قید وبند کی سزائیں ہوئیں ، ان کا اورمولانا کی کل عمر کا حساب لگایا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ان زندگی کا تیسرا دن قید میں گذرا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کم وبیش 15 سال قید میں گزا رے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme