پنجاب اسمبلی سے جرائم پیشہ گروہوں تک

Published on April 20, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 495)      No Comments

Logo-G-M-Bajwa
بتایا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ پوری قوم کی حمایت سے لڑی جارہی ہے ۔ بلاامتیاز احتساب سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہترہوگا اور مسلح افواج آئندہ نسلوں کے لئے ہر بامقصد کوششوں کی مکمل حمایت کریں گی۔ کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے بغیر ملک میں دائمی امن اور استحکام نہیں آ سکتا۔ ملکی یکجہتی، استحکام اور خوشحالی کے لئے ہر سطح پراحتساب ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے پاک فوج مکمل تعاون کرے گی۔ پاکستان کی سالمیت اور ترقی کیلئے بلاامتیاز احتساب ضروری ہے ۔ پاکستانی قوم کو اعتماد ہے کہ عدلیہ اور پاک افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں ایماندار افسر اپنا وعدہ پورا کرینگے۔
دوسری جانب پاکستان کی تاریخ گواہ ہے ۔سیاستدانوں ،پولیس اہلکاروں پر ہمیشہ سے یہ الزام رہاہے کہ انہوں نے جرائم پیشہ افرادکو جنم دیااوربرس ہا برس سے ہزاروں گروپس ’’ قبضہ گروپ،ڈکیت گروپ ،پٹواری گروپ، درباری گروپ ،بھکاری گروپ ،منشیات گروپ،ٹرانسپورٹ گروپ ،یونین کونسل سیکرٹری گروپ وغیرہ وغیرہ ‘‘کو پالنے میں مصروف ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام گروپس کو پالنے کا مقصد صرف اور صرف لوٹ مار ،کرپشن اور غریب عوام پر حکمرانی قائم رکھناہے۔ صر ف پنجاب میں ایک ہزار سے زائد جرائم پیشہ گروپ موجود ہیں جن کو پولیس اہلکاروں سمیت سابق اور موجود ممبر ان قومی وصوبائی اسمبلی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما ؤں کی براستہ حمایت حاصل ہے۔تقریباؔ 1ارب روپے روزانہ کرپشن ،چوری،ڈکیتی سمیت دیگر واقعات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ان تما م لوگوں کا بلاامتیاز احتساب کئے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اس کی سب سے بڑی مثال چھوٹو گینگ ہے جس کو پالنے اور پھر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کرنے کے بعد پنجاب پولیس اور صوبے کے سیاسی حکمرانوں نے بالآخر فوج کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور اسے مجرموں کے اس خطرناک گروہ کا خاتمہ کرنے کے لئے ٹاسک دے دیا گیا ہے ۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے آٹھ برس صرف کئے ہیں۔چھوٹو گینگ 200 افراد پر مشتمل مجرموں کا گروہ ہے ۔ گزشتہ دہائی کے دوران وہ ایک مقامی ایم پی اے کا سکیورٹی گارڈ تھا اور اس دوران پولیس ٹاؤٹ کے طور پر بھی کام کرتا رہا تھا۔ البتہ 2007 کے بعد سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے پر تیار ہو گیا۔
لیکن سوال پید ا ہوتاہے کہ ۔راجن پور سے 4 ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ، جن میں ایک صاحب ڈپٹی سپیکر بھی ہیں جن سردار شیر علی گورچانی ہیں۔’’پی پی ۔ 247راجن پور ۔سردارعلی رضا خان دریشک۔پی پی ۔ 250 راجن پور ۔  سردار عاطف حسین خان مزاری۔پی پی ۔ 249 راجن پور ۔ سردار نصراللہ خان دریشک۔پی پی ۔ 248 راجن پور ۔ سردار شیر علی گورچانی‘‘شامل ہیں۔
مبصرین اور ماہرین کا کہاہے کہ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اگر ایسے ہی ممبران صوبائی وقومی اسمبلی کے کردار سامنے آتے ہیں جو سانحات کے بعد چند ماہ کے لئے اپنے عہدے سے ’’معطل‘‘ رہ کر پوری شان سے دوبارہ اسی عہدے پر واپس آ جاتے ہیں تو دوسری طرف کئی گینگ پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے سے ناانصافی ، بدعنوانی اور بدانتظامی و نااہلی کا خاتمہ کرنے کے لئے بزعم خویش خود قانون اور منصف کا روپ دھار لیتے ہیں اور اپنے ہر جرم کو انصاف کے حصول کا نام دیتے ہیں۔ملک میں اگرچہ کوئی ایک آدھ شخص ہی قانون شکنی کی اس انتہا کو پہنچا ہے جو غلام رسول چھوٹو کے حصے میں آئی ہے ۔ لیکن ہمارے اردگرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو سیاستدانوں کی کمزوری ، بدعنوانی اور سماج کی برائیوں کا علاج یوں تجویز کرتے ہیں کہ ہر چوک میں پھانسی گھاٹ نصیب ہو اور ذرا سا قصور کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ اسی لئے ملک میں موت کی سزا بحال کرنے کے ایک سال بعد جبکہ پاکستان دنیا میں پھانسی دینے والے ملکوں میں دوسرا نمبر حاصل کر چکا ہے ۔حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ موت کی سزا کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح میں 28 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔
قلم یہ لکھتے ہوئے کانپتا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ چھوٹو نے اپنے علاقے میں رحم اور حسن سلوک کے طرز عمل سے لوگوں کو اپنی ڈھال بنایا ہے ۔ وہی اصول معاشرے اور سماج میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیس ہو یا انتظامیہ ، وہ جب تک ظلم اور ناانصافی کی علامت بنی رہے گی، لوگ اس سے دور بھاگتے رہیں گے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Themes