وزیر داخلہ چوہدری نثار کا ڈی جی ایف آئی اے کو مستعفی ہونے کا مشورہ

Published on May 24, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 283)      No Comments

3333
اسلام آباد :(یو این پی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی غلطیاں ماتحت عملے اور اعلیٰ سول افسران پر ڈالنے کی روش برقرار رکھی اور ڈی جی ایف آئی اے کو چارج ڈی جی امیگریشن کے حوالے کر کے مستعفی ہونے کا مشورہ دیدیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں سیکرٹری داخلہ چیئرمین نادرا، ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ، ڈی جی ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کے سینئر حکام نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تنظیم نو کے معاملے پر وفاقی وزیر داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے محمد عملیش کی سرزنش کی جس پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے وزیر داخلہ کو مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی، جس پر وزیر داخلہ نے پہلے انہیں چارج ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تاہم بعد ازاں ڈی جی ایف آئی اے کو کہا کہ وہ اپنا استعفیٰ مجھے بھیج دیں اور کام جاری رکھیں۔ ذرائع کے مطابق یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کے کرپٹ افسروں کو ٹرانسفر کرنے پر ڈی جی ایف آئی اے کی سرزنش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈی جی ایف آئی اے محمد عملیش صاف ستھرے کردار کے آدمی ہیں اور ان پر کرپشن کے کوئی الزامات نہیں اور انہوں نے ایف آئی اے کو کالی بھیڑوں سے صاف کرنے کیلئے بدعنوانی میں ملوث افسران کے تبادلے کیئے، جس پر وزیر داخلہ ڈی جی ایف آئی اے سے ناراض ہوگئے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان اپنے غلط فیصلوں کو ماتحت عملے پر ڈال کر ان کا کیرئیر تباہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران انہوں نے پولیس کے اعلیٰ افسروں آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کو تبدیل اور ایس ایس پی محمد علی نیکوکارا کو نوکری سے برطرف کر دیا تھا۔ گورنر پنجاب کے سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر جب چہلم کے شرکاء نے اسلام آباد پر چڑھائی کی اور ڈی جی چوک پر دھرنا دیا تو اس وقت بھی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان اسلام آباد سے غائب ہوگئے تھے اور تین دن لاہور میں بیٹھے رہے تھے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes