خارجی امور پر مضبو ط پالیسی کی ضرورت

Published on May 27, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 751)      No Comments

Shafaqatullah
ایران پاکستان کوآزاد ریاست تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک تھا اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی انتہائی حد تک اچھے رہے ہیں اور سب سے بڑی حب کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی فارسی زبان میں ہے لیکن اب اس لازوال پیار و محبت کو چشم بد چاٹ کھانے لگی ہے کہ آئندہ وقتوں میں حالات اس کے بر عکس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایران میں ایسے واقعات اچانک سے رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا مستقبل خون میں لپٹا نظر آتا ہے ۔اچانک سے پاکستان میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ؛را؛کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو سمیت دیگر پکڑے گئے جنکے پاس ایران کے ویزے اور پاسپورٹ برآمد ہوئے اسی طرح حال ہی میں پاکستان کی خودمختاری کو نشانہ بنایا گیا کہ جب پاکستان کی سرحدی حدود میں ایک ڈرون اٹیک میں ولی محمد مارا گیا جسکو امریکہ کے مطابق ملا منصور کہا گیا ہے اور اسکے پاس پاکستانی پاسپورٹ بھی موجود ہے لیکن اس پر ویزہ پھر ایران کا لگا ہوا تھا یہاں ایک سوال یہ ہے کہ جو بھی دہشتگرد پاکستان میں پکڑا جاتا ہے اس کا تعلق کسی نہ کسی جانب سے ایران سے ضرور ہوتا ہے؟ جبکہ انڈیا کا الزام تھا کہ انکے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے ایران کی سر زمین سے گرفتار کیا ہے تو پھر انڈیا اور ایران کے تعلقات تو اچھے نہیں ہونے چاہئیں تھے لیکن پھر بھی سہ ملکی معاہدہ ہوا ہے جسمیں انڈیا ،امریکہ اور ایران شامل ہیں اور کسی تیسرے ملک کی شمولیت پر پابندی بھی ہے ۔اس معاہدے پر امریکی سینیٹرز نے بھی بیانات دئے ہیں کہ ایران پر لگی پابندیوں کی وجہ سے ہونے والے معاہدوں میں نظر ثانی کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ امریکہ کوئی پابندیاں باقی رکھے گا اور ان میں ایک بڑی پابندی ایٹمی بم بنانے کے حوالے سے تھی جو کہ اب ایران بھی بننے جا رہا ہے کیونکہ اب اس پر امریکہ کی نظر کرم ہو چکی ہے ۔یہاں اگر دیکھا جائے تو ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ جب پاکستان میں بھارت کی دخل اندازی دیکھی گئی اور بڑی سنگین صورتحال بھی سامنے آئی کہ ؛را؛پاکستان میں اب تک کیا گل کھلاتی رہی ہے اس پر اقوام متحدہ کا رد عمل یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ بھارت کو آڑے ہاتھوں لیتی لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ بھارت اور ایران کو شاباشی کے طور پر نظرانے میں بڑے بڑے معاہدے دے رہا ہے یوں کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جو کام خفیہ طور پر سر انجام دیا جا رہا تھا اب وہ ہی کام سر عام کئے جائیں گے اور پاکستان میں بیرونی مداخلت بڑھ جائیگی چاہ بہار پورٹ پر امریکہ ،بھارت اس لئے بھی زور دے رہے ہیں تاکہ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کو متاثر کیا جا سکے اسکے علاوہ سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات بھی امریکہ کیلئے نا خوشگوار ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلئے خاص طور پر پاکستان کی جانب سے جتنی بھی کوششیں کی گئیں ہیں انہیں ثبو تاژ کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہو۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ افغانستان ایک میس بن چکا ہے ان تمام قوتوں کا کیونکہ اگر پاکستان اس میں اپنی مداخلت بند کر دے تو بھی افغانستان میں قتل و غارت گری عام ہو جائے گی اور اگر انڈیا کو نکال دیں تو بھی یہی صورتحال متوقع ہے اور مستقبل میں یہ بھی واضع امکانا ت موجود ہیں کہ کہیں نہ کہیں اس میں روس کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ہم دیکھ سکتے ہیں جس وقت مودی ایران میں موجود تھے اسی دن پاکستان میں ڈرون حملہ کیا گیا اور سیریا میں بھی 150 لوگوں کو ہلاک کیا گیا اور یہ واقع با لکل اسی جگہ انجام پذیر ہوا جہاں ایرانی لوگ رہتے ہیں اور وہیں پیوٹن بھی موجود ہے کیونکہ یہ ایک عالمی گینگ ہے انڈیا ،روس ،اسرائیل ،بھارت اور اب ایران بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے کیونکہ ایرانی تنظیموں فاطمیون اور لوائی زینبیون کی شام میں موجودگی اور شامی مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں بھی سامنے آچکی ہیں اور اگر یہاں بات ڈرون حملے کی کی جائے تو اس میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ؛سی آئی اے؛ کا ہاتھ نظر نہیں آتا کیونکہ ڈرون امریکہ کی دو طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں ایک سی آئی اے اور دوسری جوائنٹ آپریشن کمانڈو ز لیکن سی آئی اے جو ڈرون کنٹرول کرتی ہے وہ صرف ایک مخصوص ہدف یا چپ پر بلاسٹ ہوتا ہے یہ حملہ اس سے برعکس ہے اس لئے یہاں یہ بات تو ظاہر ہے کہ یہ حملہ امریکی سی آئی کی جانب سے نہیں ہو ا بلکہ جے او سی کی جانب سے ہوا جس میں ولی محمد مارا گیا اور اگر جے او سی نے یہ ڈرون حملہ کیا ہے تو اس میں زمینی سرگرمی بھی ضرور استعمال کی گئی ہے جسکو سہولت کار یا ایجنٹ کہا جا سکتا ہے اور ہاں ایک بات یہ بھی سامنے ہے کہ طالبان نے بھی اس بات کو فوری مان لیا ہے کہ ملا منصور واقعی مارے گئے ہیں جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور امن مذاکرات کا سلسلہ پاکستان کی جانب سے ہموار کیا جاتا ہے اسی وقت کوئی نہ کوئی ایسا واقع رونما ہوتا ہے جس سے طالبان اور پاکستان کے مابین ایک گہرا فراق پیدا ہو جاتا ہے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اس میں بیرونی سازش ملوث ہے جو کہ سب کے سامنے ہے ۔اس بار بھی پاکستان کی خود مختاری کو تار تار کیا گیا ہے تو سوائے چوہدری نثار کے کسی بھی حکومتی اور اپوزیشن سیاسی شخصیت کی جانب سے مذمت نہیں کی گئی بلکہ سب پاناما لیکس کو لے کر سر جوڑے بیٹھے ہیں چونکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف خود وزارت خارجہ کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں اور اسی طرح سرتاج عزیز اور فاطمی صاحب کا حق بنتا تھا کہ وہ اس پر کوئی سخت قسم کا رد عمل دیتے مانا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کئے جا سکتے لیکن پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر سمجھوتا بھی نہیں کیا جا سکتا اگر یہ بات مد نظر رکھی جائے تو 2010 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس وقت امریکہ کے ساتھ سب زیادہ تعلقات خراب تھے اور اتنا آج تک فراق نہیں پیدا ہوا۔لیکن پاکستان کی خارجی پالیسیوں میں ڈپلومیسی اس لئے کمزور نظر آتی ہے کیونکہ ان حکومتی عہدیداروں کا بہت سا را پیسہ وہاں پڑا ہوا ہے اور بدقسمتی سے یہی لوگ خارجی امور کی وزارت پر فائز ہیں اور پاکستان کے یہ حالات بھی اسی لئے ہیں ۔ یہ حالات صرف پاکستان کے ہی نہیں ایران کے بھی ہیں کہ ایک طرف سے تو عرب نے گھیر رکھا ہے اور دوسری طرف سے طالبان نے اسی طرح انڈیا کے اطراف بھی پاکستان اور چین بیٹھے ہیں اسی طرح سیریا میں ہونے والے جھگڑوں میں مشہور کیا جا رہا ہے طالبان اور ازبک کے درمیان آپسی جھگڑے ہوئے ہیں مطلب پوری مشرق وسطیٰ میں یہ حالات ہیں اگر ایران یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی زمین اسکے خلاف استعمال ہوتی ہے اور طالبان کاروائیاں کرتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول گیا ہے کہ اول دن سے پاکستان ایران کی کتنی مدد کر رہا ہے اور کتنے ایرانی مفرور پاکستان نے پکڑ کر انکے حوالے کئے ہیں۔ اب ایرانی سر زمین بھی تو پاکستان خلاف استعمال ہو رہی ہے جس پر ایران کو چاہئے کہ وہ اس پر توجہ دے کیونکہ جتنا مرضی امریکہ اور بھارت کے ساتھ ملکر معاہدے کر لے اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان مستحکم نہیں ہوتا اگر اس کو کسی طرح سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو وہ ایک مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت ہے پاکستان میں اسوقت پاکستان سے زیادہ ایران سے محبت کرنے والے لوگ مقیم ہیں وہ کافی عرصے سے خاموش دکھائی د ے رہے ہیں اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل قریب میں ایران سی پیک منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کیلئے پاکستان میں ان لوگوں کی مدد سے خانہ جنگی نہ کروا دے!پاکستان کو اس وقت ایک مضبوط خارجہ پالیسی ، نڈر اور انتظامی و خارجی امور میں سر گرم حکومت کی ضرورت ہے کہ جس کو کسی؂ کا ڈر نہ ہو ۔ اللہ ہمیشہ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔۔۔۔ آمین۔۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy