کیا کھویا کیا پایا

Published on June 11, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 492)      No Comments

index
آج سے چند دن بعد میں اٹھارہ سال کا ہوجاؤں۔میں زندگی کے اٹھارہ سال گزار چکا ہوگا۔ بعض دفعہ سوچتا ہوں کہ میں نے زندگی میں کیا کھویا کیا پایا۔زندگی کے اٹھارہ سال کہ جو میں گزار چکا ہوں اس میں بہت سے اتار چڑھاؤں آئے۔لیکن جس چیز وں میں عروج زوال نہیں آیا وہ ہے میری احساس کمتری،نفرت،اور بغض۔اور ہاں میں لوگوں سے بغض رکھتا تھا۔میرا شمار ایک معروف خاندان سے تھا ،میرا باپ ایک بیوروکریٹ ہے اور میری ماں بھی۔میں زندگی میں اب تک کچھ حاصل نہیں کرسکا۔سوائے اک نام کے جو بھی میرا نہ تھا۔مجھے بچپن سے ایک چیز کی کمی تھی۔وہ تھی پیار کی ۔۔میں ہمیشہ پیار سے محروم رہا۔ہمارے معاشرے میں جو تاثر ہے وہ یہ ہے کہ باپ تو کمائی کرتا ہے ۔ماں گھر کا خیال رکھتی ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔میری امی عمومی طور ایک سی۔ایس۔ایس آفیسر ہے ۔سرکاری نوکری کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ان کا معمول تھا۔اس لئے میری پڑھائی میں مشکلات پیش آتی تھی ۔اس وجہ سے مجھے بورڈنگ سکول بھیج دیا گیا
وہاں پر سب کچھ ٹھیک تھا لیکن صرف ایک بات غلط تھی وہ یہ کہ وہ گھر نہ تھا ۔میں نے آٹھ سال وہاں گزارے۔لبرلزم،سیکولرزم کے حامل لوگوں کے ساتھ بیٹھنا میرا معمول تھا۔یعنی کہ میں اپنے دین کے رستے سے ہٹ گیا۔اسی دوران مجھے ڈپریشن جیسے موذی دوست نے یار بنا لیا ۔اب کیفے سنٹرز اور کلبوں میں جانا میرا معمول بن گیا۔میرا بچپن کہ جس کو ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی قرار دیا گیا وہ اس بورڈنگ سکول میں گزر گیا۔سونے پہ سہاگا یہ کہ میری وسیع سوچ(لبرلزم) کے حامل دوستوں نے میرا دھیان دین سے ہٹا دیا۔مجھے اپنے گھر والوں سے نفرت ہوگئی۔میں نے برے کام شروع کر دیے۔لوگوں سے لڑائی شروع کر دی ۔اپنے ماں باپ کے اختیارات کا غلط استعمال شروع کر دیا۔اور بس اسی طرح وقت گزرتا چلا گیا اور میں دین سے دور ہوتا گیا۔سکون کی راہ میں بے سکونی کے تکیوں کو استعمال کرتا رہا۔۔۔یہاں تک کے کانٹوں کے بستر پہ سکون تلاش کرتا رہا ۔پھولوں کو چھوڑ کر کانٹوں میں خوشبو ڈھونڈتا رہا۔ ہائے افسوس کہ میں اپنے رب کو نہ منا سکا۔میری ہی کلاس کا ایک لڑکا جسے ہم داڑھی کی وجہ سے عرف عام’’ مولبی‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔اک دن مجھے اللہ کے گھر لے گیا۔اس گھر میں کہ جہاں مجھے گئے ہوئے بھی کافی عرصہ ہوگیا تھا۔۔یہ وہ وقت تھا کہ جسے ہم ٹائم چینج کہہ سکتے تھے۔جس سکون کی تلاش میں ،میں دربدر کی خاک چھانا کرتا تھا ،مجھے اس دن پتا چلا کہ وہ تو میرے رب کے پاس ہے۔میں مسجد میں گیا ۔ڈرتے ہوئے کہ ابھی کوئی کہے گا کہ یہ تو لبرل ہے نکالوں اسے یہ واجب القتل ہے۔لیکن ہائے افسوس کہ جتنی باتیں میرے لبرل دوستوں نے کی تھی وہ وسوسے اِک دم کہیں اڑن کھٹولا ہو گئے۔
مجھ سے وہاں کے امام مسجد بڑی شفقت کے ساتھ پیش آئے۔میں سمجھا کہ شائد
انہیں پتا نہیں۔میں نے چپکے سے کہا کہ مولوی صاحب میں لبرل ہوئے۔تو ان کے
ماتھے پہ اک شکن بھی نہ ملا۔بولے جناب مسلمان گھرانے میں تو پیدا ہوئے ہو نہ
یا کلمہ پڑھاؤں۔۔اس بات نے میرے اند کرنٹ جیسی کیفیت دوڑادی۔میں نے کہ مجھے کچھ سکون ہوا ہے لیکن مجھے مکمل سکون چاہیے۔وہ مسکرائے اور مجھے ترجمہ والا قرآن پاک دیا ۔جوں جوں میں پڑھتا گیا شرم کے مارے زمین میں دھنستا رہا۔ کہ میں کہاں سکون تلاش کرتا رہاں۔میں جس مقصد کے لئے دنیا میں آیا تھا میں تو وہ مقصد ہی بھول گیا۔
آج سے چند دن بعد میں اٹھارہ سال کا ہوجائے گا ۔مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میں نے ان اٹھارہ سالوں میں بہت غلط کام کیے۔ماں باپ کی شفقت سے محروم رہا۔ہاں! البتہ اس بات کی خوشی ضرور ہے کہ میں نے اپنے رب کو پالیا۔
میں کوئی ولی نہیں۔اور نہ ہی تھا ۔البتہ میں ان لوگوں میں ضرور ہو کہ جن کو ربِ رحمان نے اپنی طرف بلایا۔میں تو کئی سال اپنی نبی ﷺ کی سنت کا مذاق اڑاتا رہا
لیکن آج اسی سنت کو دیکھ کہ مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
میرے نزدیک ہر اک بندے کی یہی کہانی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کی فکر میں مبتلا ہوتا ہے اور سکون کی تلاش میں ایسے کام کرتا ہے کہ جسے ہم کہہ سکتے ہے کہ وہ دلدل میں اتر کر ہلتا ہے کہ باہر آجائے لیکن وہ باہر کی بجائے مزید اندر چلا جاتا ہے۔
آج کے معاشرے کو دیکھا جائے تو ہر بندہ بھوکا ہے۔کوئی اقتدار کا بھوکا ہے تو کوئی طاقت کا بھوکا۔کوئی بھنگ کے ایک پیالے کے عوض اپنا سب کچھ بیچ جانے پر آمادہ تو کوئی سستی شہرت کا بھوکا۔یہ بھوک ان کی بے سکونی میں اضافہ کرتی ہے۔کوئی
دو نمبری سے پیسہ کما رہا ہے تو وہ بھی اس میں سکون تلاش کر رہا ہے۔
میں تو آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا!!
ؔ اللہ کو بھول گئے لوگ روزی کی فکر میں
رزق کی تلاش ہے ،مگر رازق کا خیال نہیں
(فرضی خاکہ)۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes