ارمان دل

Published on June 21, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 932)      No Comments

Uzma-1
قسط نمبر19

رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا

ستاروں کی مدھم روشنی ویران اور گھپ اندھیروں میں ہر  راہ گیر کو روشنی مہیا کرتی ہے۔اسی طرح ان ستاروں کی روشنی میں ایک چمکتا ستارہ امید کی کرن بنتے ہوئے ہر مایوسی اور نا امیدی   کو  کو دور کر دیتا ہے۔
اچھا لگتا ہے ان ستاروں سے باتیں کرنا۔
بے انتہا سکوں اور بے اطمینان ۔۔۔۔!!!وہ ڈائری پر لھتے ہوئے کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
سب کام سکون سے ہو گئے ۔صبا بھی بہت خوش ہیں اپنے گھر ۔۔۔۔۔
اور امی بھی پرسکون ہیں اور گڑیا۔۔۔۔۔وہ لکھتے لکھتے اچانک رکی اور اس کو بیڈ پر سویا ہوا دیکھ کر مسکراتے ہوئے  پھر سے لکھنے لگی۔
اور گڑیا تو۔۔۔۔۔!!!
عجیب پاگل سے ہے۔اپنے لئے خوشی کی وجہ ڈھونڈتی ہے۔مگر میری خوشی۔۔۔۔۔۔!!وہ مسکراتے مسکراتے رکی اور اس کے چہرے پر سنجیدگی پھیل گئی ۔
میری خوشی کا کیا ہے۔۔۔۔!!!وہ آنکھوں سے میں آئے  آنسوؤں کو تیزی سے صاف کرتے ہوئے لکھنے لگی۔
یہ سب لوگ خوش ہیں تو۔۔۔۔۔!
میں بھی خوش ہوں۔۔!!
میں ہرگز وہ  کام نہیں کروں گی جس کی امید جواد سر مجھ سے رکھتے ہیں۔
میں مجبور ضرور ہوں مگر محبت مجبوری تو نہیں ہوتی نا۔۔۔۔
وہ لکھتے لکھتے خود سے باتیں کرتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔
٭٭٭
جواد۔۔۔۔۔!!!ثناء اسے جاتے ہوئے دیکھ کر پیچھے سے آواز لگانے لگی۔
کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں پیچھے سے آواز غصہ سے بولا۔
وہ۔۔۔۔!!!وہ شرمندہ ہوتے ہوئے تاسف سے بولی۔
وہ جواد۔۔۔!!!
ارے ۔۔۔۔کچھ  بولو بھی۔وہ سنجیدہ ہوا۔
آپ مجے تائی جان کی طرف چھوڑ دیں گے کیا؟؟؟التجائیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ بولی۔
تائی جان ؟؟؟؟وہ حیران ہوا ۔۔۔
مگر کیوں؟؟؟وہ سٹپٹا سا گیا۔
میں بور ہو رہی تھی گھر پر۔۔۔
تو سوچا کہ ان سے مل ہی آؤں ۔۔۔
آپ کو پتہ تو ہے نا کہ ۔۔۔
حیا اور شاہ میر کی پریکٹس شروع ہو گئی ہے ۔۔۔
میں اب گھر پر اکیلی ۔۔۔!!وہ تمہید باندھتے ہوئے  اس کو قائل کرنے کی غرض سے بولتی گئی۔
اچھا۔۔۔
بس۔۔۔بس۔۔۔وہ زچ ہ وکر بولا ۔
تیار ہو کر آؤ۔۔۔
 ویٹ کرتا ہوں باہر۔۔۔۔!!
جی۔۔۔
شکریہ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
٭٭٭
ہیپی ویک اینڈ یار۔۔۔!!!شکیل علی الصبح اسے جاگنگ کے لئے دیکھتے ہی فوراَ َ  َ اس کےپاس آکر کہنے لگا۔
ہاں۔۔۔۔۔!!
ہیپی ویک اینڈ یو ٹو ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا
خیر تو ہے نا؟؟؟وہ اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ کرپوچھنے لگا۔
ہاں۔۔۔۔!
کیوں کیا ہوا؟؟؟وہ اس سے وجہ پوچھنے لگا۔
یہ تمہاری آنکھیں کیوں سوجھی ہوئی ہیں ؟؟؟
پتہ نہیں ۔۔۔۔!!!آنکھوں کو ملتے ہوئے وہ بولا۔
خیر۔۔۔۔!!
تم سناؤ۔۔۔تم یہاں کیسے؟؟؟وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
کیسے سے مطلب؟؟؟شکیل اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔
صبح صبح کوئی لڑکی پٹانے  کا ارادہ ہے؟؟؟وہ شرارتی انداز میں بولتے  ہوئے اس کو تنگ کرنے لگا۔
مت کر تنگ مجھے۔۔۔۔!!شکیل خفگی سے بولا۔
کیوں؟؟؟
کیا ہوا؟؟؟ارمان اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے بولا۔
کچھ نہیں۔۔۔۔!!
بس آج کل کی لڑکیاں ہوتی ہی بے وفا ہیں ۔وہ بات کرتے ہوئے پہلی مرتبہ سنجیدہ ہوا ۔
واہ۔۔۔!!ارمان اس کو سنجیدہ دیکھتے ہوئے مسکرایا ۔
کیا نایاب انفارمیشن دی تم نےمجھے۔۔۔۔
۔۔۔ I really don’t know about that
وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسا۔ بنا لو مذاق ۔۔۔۔
جتنا بنانا ہے۔۔۔۔!!
تمہیں ہو گی نا محبت تو پوچھوں گا تمہیں۔۔۔۔وہ خفگی سے بولتے ہوئے پانی کی بوتل  کو منہ لگا کر بولا۔
محبت۔۔۔۔!!وہ مذاحیہ انداز میں بولا۔
چلو۔۔۔
تمہاری طرح محبتیں تو نہیں ہوں گی نا مجھے ۔۔۔!!وہ اس کا مذاق بناتے ہوئے پھر سے ہنسا ۔شکیل مسلسل اسے گھورنے لگا۔اس کو ایسے گھورتے ہوئے  دیکھ کر ارمان پھر سے ہنسنے لگا۔
پاگل۔۔۔۔
چلو آؤ۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے چلتے ہیں ۔وہ ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
بھاڑ میں ڈالو۔۔۔۔۔اپنی بے تحاشا محبتوں کو۔۔۔۔!!ارمان پھر سے اس کو تنگ کرتے ہوئے بولا کیونکہ آج شکیل کو تنگ کر کے وہ لطف اٹھا رہا تھا۔
٭٭٭
تم آسکتی ہو کہ نہیں؟؟؟مسکان زویا سے فون پر بات کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔
مسکان۔۔۔۔!
آج مشکل ہو گا۔۔۔۔!!وہ معذرت سے بولی۔
مگر میں۔۔۔۔!!
ہاں یا نا؟؟وہ غصہ سے بولتے ہوئے اس کی بات کاٹنے لگی ۔
میں نے کہا نا یار۔۔۔
میں کوشش کروں گی۔۔۔وہ اس کو پرسکون کرتے ہوئے بولی۔
نا کرو کوشش۔۔۔۔!!
پچھلے سنڈے بھی ایسا ہی کیا تھا تم نے۔۔۔!!وہ گلہ کرتے ہوئے بولی۔
مسکان میری بات تو سنو۔۔۔!!
مسکان۔۔۔!!جبکہ وہ فون رکھ چکی تھی۔
کہنے کو تو دوست  ہیں مگر کیا دوست ایسے ہوتے ہیں جب دل کیا بات کر لی جب دل کیا بات نہ کی۔۔۔کیا تعلق صرف فرصت کا ہی محتاج ہے؟؟
توجہ اور کسی اپنے کی پریشانی کا احساس ہوناہی تو تعلق کی مضبوطی ہے۔۔۔۔۔!!
مگر یہ لوگ فرصت ہی کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔۔۔۔؟وہ زویا کا فون سننے کے بعد خود سے باتیں کرتے ہوئے  پرندوں کے پنجرے کو ہاتھ لگاتے  ہوئے حسرت سے ان پرندوں کو دیکھنے لگی۔اور سرمد  بھائی ہیں تو وہ بھی مصروفیت  کا ڈھنڈورا  پیٹتے رہتے ہیں۔۔۔!!
اب مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں ان دونوں کی۔۔۔!!وہ افسردہ ہوتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی۔
٭٭٭
 مسکان بیٹی ۔۔!!
مسکان بیٹی۔۔۔!!عابد صاحب  اونچا اونچا بولتے ہوئے اسے پکارنے لگے۔۔
جی۔۔۔بابا ۔۔!وہ فوراََ َ سے سیڑھیوں کے پاس آتے ہوئے بولی۔
نیچے تو آؤ ۔۔!وہ مسکراتے ہوئے اوپر دیکھ کر اس سے کہنے لگے۔
جی۔۔۔!!وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے ان کے پاس آکھڑی ہوئی ۔
یہ لو۔۔!!وہ چیزوں سے بھرا شاپر اس کو پکڑ انے لگے۔
یہ کیا؟؟؟وہ چیزوں کا شاپر پکڑتے ہوئے بولی۔
یہ سیٹھ صاحب نے دی ہیں۔
تمہارے لیے۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگے۔
اور مجھے یہ بھی کہا کہ میں ان کی طرف سے تمہارا ماتھا چوموں۔۔وہ مسکراتے ہوئے اس کی پیشانی چومنے لگے۔
بابا۔۔۔۔!
وہ سب تو ٹھیک ہے ۔۔وہ خوشی سے بولی۔
مگر بابا۔۔۔
اب کی بار تو انہیں گھر آنا چاہیئے تھا نا۔۔۔!!وہ گلہ کرنے لگی۔
ہاں کہا تھا میں نے۔۔۔!!
مگر ان کو کوئی ضروری کام تھا۔۔۔!!
ام م م۔۔۔
سچ میں ،میر ا بڑا ارمان ہے ان سے ملنے کا۔۔۔!!وہ پرجوش ہوتے ہوئے بولی۔
ہاں بھلے آدمی ہیں ۔۔!!
بہت پرانا ساتھ ہے میرا ور ان کا۔۔!
اور تبھی سے ہی سیٹھ صاحب کو بھی بہت انسیت ہے تم سے۔۔
کوئی انسیت نہیں ہے ان کو۔۔
پچھلے کئی سالوں سے چیزیں بجھوا دیتے ہیں مگر کبھی خود آکر تو چیزیں نہیں دیں ناں۔۔۔!!وہ گلہ کرتے ہوئے بولی۔
بیٹی۔۔
ایسا نہیں کہتے ۔۔۔!!وہ اس کو سمجھانے لگے۔
ٹھیک کہتی ہوں با با۔۔
آپ ہی دیکھئے نا۔۔۔
چیزوں سے محبت کے خلا ء  توپر نہیں  ہوتے نا؟؟؟وہ ا سے پوچھتےہوئے کہنے لگی۔
ہاں۔۔۔
میری بچی۔۔۔!ٹھیک کہتی ہو۔۔
کل صبح واک پہ جاؤں گا تو تمہارا پیغام دے دوں گا انہیں۔۔!!
جی۔۔۔
اور کہیئے گا کہ میں بہت خفا ہو جا ؤں گی اگر وہ مجھ سے ملنے نہ آئے ۔وہ بچوں کی طرح بولی اور عابدصاحب اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔
جاری ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes