برطانیہ میں بحران شدت اختیار کرگیا: وزیراعظم کے بعد اپوزیشن لیڈر بھی کسی لمحے استعفیٰ دے سکتے ہیں

Published on June 28, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 439)      No Comments

shahid
لندن ( شاہد جنجوعہ یواین پی بیوروچیف ) برطانیہ بڑے پیمانے پرآئینی بحران کا سامنا۔ ویزراعظم کے بعد اپوزیشن لیڈر جیرمی کاربن کے بھی عوامی فیصلے کے سامنے سرنکوں ہونے کی خبریں اعلیٰ حلقوں میں زور پکڑگئیں سرنکوں ہونے کی خبریں اعلیٰ حلقوں میں زور پکڑگئیں۔ آج نہیں تو کل جیرمی کاربن بھی استعفیٰ دینےکا اعلان کرسکتے ہیں۔ ریفرنڈم میں عوام کے غیرمتوقع فیصلے سے برطانیہ کو ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی توقع نہ حکومت کو تھی اور نہ عوام کو اس کا اندازہ تھا۔ اسوقت برطانیہ کے دوسرے بڑے صوبے سکاٹ لینڈ کی حکومت بدستور بضد ہے کہ وہ یورپین یونین کے ساتھ اپنا الحاق قاہم رکھنا چاہتے ہے اور اس کیلئے بے شک ایک اور ریفرنڈم ہی کیوں نہ کروانا پڑے یا برطانیہ کی فیڈریشن ٹوٹے جسکی بحرحال برطانیہ کا آئین انہیں ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ برطانیہ میں بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر جیرمی کاربن کے گزشتہ روز سے ابتک 31 میں سے 19 مضبوط حمایتی اور شیڈوکینبٹ ممبر استعفیٰ دے چکے ہیں اور آئندہ دو دنوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کرجائےگا ۔ برطانیہ میں اگلے ویراعظم کیلئے لندن کے سابق مئیر بورس جانسن اور مائیل گوو نے تیاری شروع کردی ہیں مگر وقت بتائے گا کہ وزارت عظمیٰ کا ھما کس کے سر بیٹھے گا۔ اسوقت برطانوی پونڈ کی قیمت 8٪ نیچے گرچکی ہے اورعالمی منڈی میں 100 بلین کی کساد بازاری دیکھنے میں آئی ہے ۔ اس موقع پریو این پی کے ایک سروے کے مطابق عام عوام اللناس کا یہ کہنا ہے امیگریشن پر سخت گیر مؤقف رکھنے والی پارٹی یوکیپ کے سربراہ نائیجل فراغ نے عوام سے جھوٹ بولا انہوں نے اس ریفرنڈم کی ساری کمپین میں یہ نعرہ لگایا کہ یویرپن یونین کو دی جانیوالی رقم وہ ہیلتھ سیکٹر پر خرچ کریں گے اور ریفرنڈم کا نتیجہ آنے کے پانچ منٹ بعد وہ اپنے بیان سے مکر گئے کہ دراصل انکا مطلب یوں نہیں یوں تھا۔ اس موقع پر بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں اپوزیشن پارٹی کے بعض راہنماؤں نے نسل پرستی کا کارڈ کھیلا اور عوام کو امیگریشن کے معاملات میں یورپین یونین کے دباؤ ایگریکلچرل معاملات میں بے جا ریڈٹیپ کے استعال پرورغلایا اور انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ ان کے اس فیصلے کے کتنے دورس نتائیج برآمد ہونگے۔ اسوقت یورپین یونین برطانیہ پر زور دے رہا ہے کہ اگر انہوں نے باہرنکلنے کا فیصلہ کرلیاہے تو اس کتے قانونی عمل کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے اور یورپین یونیں کے آئندہ اجلاس میں وزیراعظمم برطانیہ اپنی واضح پالیسی کے اعلان کیساتھ آئیں۔ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوری اقدار اور عوامی خواہشات کے سامنے حکومت اور اپوزینشن دونوں کو ہمیشہ اپنی گردن جھکانی پڑتی ہے اور اگر عوامی فیصلہ حکومت کیخلاف ہو تو ویراعظمم استعفیٰ دیکر گھر جاتا ہے ورنہ اپوزیشن لیڈر خود استعفیٰ دیکر اپنی پارٹی کی بھاگ دوڑ کسی ایسے شخض کے حوالے کردیتا ہے جس پر ساری پارٹی ووٹنگ کرکے اپنے اعتماد کی مہر تصدیق ثبت کرکے اس فیصلے کی توثیق کردیتی ہے۔ یہاں یوریین ریفرنڈم میں عجیب صورتحال ہے ، حکمران پارٹی دو حصوں میں تقسیم تھی جب کہ اپوزیشن پارٹی لیبرپارٹی کی بظاہر ساری کی ساری قیادت ریفرنڈم میں برطانیہ کے یوریپن یونین کے الحاق پر متفق تھی مگر وہ اپنی رائے کے حق میں موثر کمپین چلانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ اس یورپین ریفرنڈم کا فیصلہ عوام نے ووہ ویزاعظم اور اپوزیشن لیڈردونوں کی مرضی کیخلاف دیا جسکے ردعمل میں پہلے وزیراعظم ڈیوڈ کیمروں نے استعفے دینے کا اعلان کیا اور آج لیبرپارٹی کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر جیرمی کاربن پر شدید دباؤ ہے کہ وہ فی الفور استعفیٰ دیں، تاکہ باہمی افہام وتفہیم سے نئ عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکے اور پھر نئ حکومت عوام کے مینڈٹ کیساتھ یورپین یونیں سے باقی معاملات میں فی الفور شامل ہو تاکہ تجارت اور دفاع کے نئے معاہدوں پر دستخط کئے جاسسکیں۔ برطانیہ میں عوام کی منشاء کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اسکے سامنے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو بلآخر سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ اب چونکہ عوامی رائےحزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں دھڑوں کیخلاف تھی لہزا دونوں کےسربراہ پر سابقہ روایت کے تحت لازم ہے کہ وہ استعفیٰ دیں ۔ مگر اس کا مطلب ہرگاز نئے انتخابات نہیں ہیں۔ برطانیہ میں بظاہر اس آئینی بحران سے پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کیلئے بہت اہم سبق یہ ہے کہ وہ بھی عوامی رائے دہی کا احترام کریں ۔ یہ آئےروز سڑکوں پردمادم مست قلندر اور قبریں کھودکر کفن پہنکر مارشل لاء کے مطالبے کرنے والوں نے انتخابات میں عوام کی نظروں میں انکےنظرئے، فلسفے اور مطالبات کی پزیرائی کا حال دیکھ لیا! جمہوریت کے نعرے مارنیوالے علامہ طاہرالقادری اور عمران خان پر لازم تھا کہ وہ استعفیٰ دیکر اپنی اپنی پارٹی کی بھاگ دوڑ اپنی پارٹی کسی دوسرے سمجھدار شخص کے حوالے کریں جو عوامی خواہشات کے مطابق پارٹی پالیسی بنائے دھرنےمیں انکے ملین اور 5 کروڑ کے بلند بانگ دعوؤں کے بعد محض چند ہزارفیلو عقیدت مند افراد کی شرکت اور پھر بھکر جیسے انتخابات میں انہہں رد کئے جانے پر غیر جمہوری اور ملک میں انتشار پھیلاکر اپنا ایجنڈا نافز کرنے کی کوشش کو انہیں اپنی غلطی ماننا چاہیے مگر ان میں سچائی تسلم کرنے کی اتنی جرات ہی نہیں۔ وہ اپنی تقیریوں میں شوخی پیداکرنے کیلئے جمہوریت کے نعرے لگارے ہیں جب کہ انکا اپنا عمل اس سے بلکل میل نہیں کھاتا۔ اس موقع پر تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد نے یو این پی سے گفتگو کرنے ہوئے کہا کہ اہل پاکستان کیلئے یہ ایک سبق ہے کہ جب عوام آپس میں تقسیم ہوگی تو وہ ہمیشہ غلط نیتجے پر پہنچے گی لیکن اگر ادارے مضبوط ہوں تو زندہ قومیں بڑے سے بڑے بحران سے نبٹنے کے بعد مزید مضبوط ہوکر سامنے آتی ہیں مگر ہمارے ہاں اقتدار کی رسہ کشی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ عوام جن لیڈران اور انکے نظرئے کو پچھلے تیس سال سے مسلسل رد کررہے ہیں وہ ایک ہی رٹ لگائے ہیں کہ ساری عوام جاہل ہے اور ایک وہ ایکلیے عقل کل ہیں یہ عجیب لوگ ہیں جو زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے ہر سال دھرنے جئسے ڈرامے کرنا شروع کردیتے۔ اس رجحان کی پاکستان کی سالمیت اور بقاء کیلیے ہر محاز پر حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes