نیا سال اور اسلام

Published on June 30, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 1,212)      1 Comment

uzma
تحریر ۔۔۔ عظمیٰ صبا
 وقت کی رفتار اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جینے والا انسان عجیب و غریب بہکاوے میں جی بہلا رہا ہے . وقت اور پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہے. صرف اس کام کے لئے جس کی ہمارے اسلام میں گنجائش ہی نہیں. اگر وہی پیسہ اور وقت انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال میں لایا جائے تو روزِ آخرت یہی سب پیش بہا خزانہ ہوگا. اکثر دیکھا گیا ہے سب ممالک میں نئے سال کی آمد کی تقریب پر جوش طریقے سے منائی جا رہی ہوتی ہے. ڈھیروں روپیہ فضول میں پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے. مگر کس لئے ؟؟؟؟ صرف نفس کی تسکین کے لئے ؟؟؟ دیکھا دیکھی یہی کام نہایت مخلصانہ طریقے سے نقل کیا جا رہا ہے. نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک میں بلکہ اسلامی ممالک بھی اس کی فہرست میں شامل ہیں. میرا مقصد کسی پہ تنقید کرنا نہیں مگر دکھ کا اظہار کرنا ہے. خدارا ! پہچانیئے مذہب کیا کہتا ہے ؟؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟؟؟ ایک “نیا سال مبارک “کا میسج کر دینے سے ساراسال خوشحالی تو نہیں برسے گی مگر ہاں ! اسی چیز پر خرچ ہونے والے روپے کو خالصانہ طور پر صدقہ کر دینے سے ہزاروں بلائیں ضرور ٹل سکتی ہیں. مگر آج کا انسان نہ عمل کی اصلاح کی فکر.اور نہ خود کی نسل کی فکر.ہمارے سامنے بہت سے کام ایسے ہیں جو غلط ہو رہے ہیں اور ہم آنکھوں پر پٹی باندھے بس خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھ رہے ہیں.. یہی لیجیئے. یہودیوں اور عیسائیوں کے مرتب کردہ تہواروں کو جوش و خروش سے منانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو رمضان کا احترام کرتے دیکھا ؟؟ ہمارے تہوار مناتے دیکھا ؟ ہم اپنی نسل کو خود کے ہاتھوں خود ہی تباہ کررہے ہیں. اور بعد میں الزام “میڈیا” پر. نہیں. ہر گز نہیں. میڈیا تک رسائی بھی اگر ہوئی تو انسان ہی کی وجہ سے. جتنا روپیہ پیسہ اور وقت “ہیپی نیو ائیر ” جیسی تقریبات میں لگایا جارہا ہے کہ اس سے سارا سال خوشحالی رہے گی. صدقہ جیسا لفظ تو جیسے نا پید ہوتا جا رہا ہے. جتنا روپیہ ان سب فضول کاموں میں بربا د ہوگا وہی پیسہ اگر بوکھوں ناداروں اور بہت سے وہ لوگ جو روز فٹ پاتھ پر مرتے ہیں ان کے لئے صدقہ کیا جا ئے تو کیا ہماری قوم کی تقدیر بدل نہیں سکتی . کیا یہی صدقہ بلاؤں کو ٹال نہیں سکتا ؟.؟ ہمارے حکمرانوں کے لئے یہ بات قابلِ غوروفکر ہے. ہمارے مذہب کی بنیاد یہ تو نہیں… پاکستان کا مطلب اگر “لا الہ الا اللّٰہ ” ہے تو نیا سال اسلامی کیوں نہیں عیسوی سال ہی کیوں بہت سے لوگ ان باتوں کو مذاق سمجھتے ہیں مگر جب زلزلہ آتا ہے تبھی توبہ کرتے ہیں مگر وہ بھی وقتی. بحیثیتِ قوم ہم صرف دنیا کے دھوکے اور مکرو فریب کی طرف جا رہے ہیں.جبکہ قرآن میں واضح لکھا ہے ” دنیا تو محض کھیل اور تماشا ہے ” یعنی جی کے بہلانے کا ساماں……….. پھر لمحہِ فکریہ یہ ہے.. ہماری تیاری غیر اسلامی تہواروں کو منانے کے لئے عروج پر ہونی چاہیئے یا پھر آخرت کی تیاری کرنے میں جو ہمارا مقصدِ حیات ہے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہے اور ہمارے اپنے ملک کے بهی کچھ  اصول ہے مگر ہم انہیں تو مانتے نہیں  ہے ہمیشہ  غیر  مسلم ممالک کے اصول  مانتے ہے کاش ہم اپنے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو دنیا  کی سب سے زیادہ  ترقی  یافتہ قوم ہم ہی ہونگے

Readers Comments (1)
  1. Asad Malik says:

    Very nice em big fan of yours





Weboy

WordPress主题