انتقامی سیاست

Published on July 29, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 575)      No Comments

Saleem
تحریر۔۔۔ حاجی محمد سلیم
آزاد کشمیر کی سیاست میں ضلع کوٹلی کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے یہاں نظریات اور عوام کوئی معانی نہیں رکھتے اور نہ ہی پارٹی کا منشعور کسی بھی اہمیت کا عامل ہے یہاں انتقامی سیاست کی روایات ہمیشہ پروان چڑھتی ہوئی نظر آئی ہے ذاتی انتقام کے لیے اپنوں کو قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے ۔ماضی شاہد ہے کہ چوہدری محمد یاسین کو ہرانے کے لیے سردار سکندر حیا ت خان نے اس وقت کے اپنے سیاسی حریف اور چوہدری یاسین کے مخالف بیرسٹرسلطان محمود کی مدد حاصل کر کے اپنے امیدور راجہ منصف داد کو جتوادیا اوربیرسٹر سلطان محمود نے اپنے ہی امیدوار شوکت فرید کو قربانی کا بکرا بنا دیا تھا۔یہ سلسلہ یہاں تک ختم نہیں ہوتابیرسٹر سلطان محمودکے دست راست اور متعدد جماعتوں کے ٹیکٹوں کو آزمانے ولے ملک محمد یوسف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو اہے تھوڑا عرصہ ہی گزرا ہے کہ ملک محمد یوسٖف نے بھی سردار سکند حیات خان کاہاتھ تھامتے ہوئے مسلم لیگ ن کی میٹرو ٹرین میں سوار ہوگئے لیکن ماضی کے اپنے قائدین اور منجھے ہوئے سیاست دانوں کے دلوں کی رنجش کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور بھرپور محنت اور پیسہ کے باوجود منہ کی کھانا پڑی ان کے مدمقابل منجھے ہوئے سیاست دان آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے امیدوار ساتویں بار میدان مارنے میں کامیاب ہوکر ملک یوسف کو ذہینی مریض قرار دینے لگے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کے ملک نواز حلقہ ایک کے واحد امیدوار ہیں جنھیں ہرانے کے لیے بے شمار تحریکیں بھی ہوئی اور کوئی بھی امیدوار ان کے سامنے نہ ٹک سکا کئی عشروں سے ان کے راج کی بنیادوں کو کوئی بھی اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہوسکا ملک یوسف نے بھی کئی بار کوشش کی ہے لیکن ان کی بھی ایک نہ چلی اور آج ایک بڑا ووٹ بنک ہونے کے باوجود کامیابی کی رسی ان کے ہاتھ آتے آتے نکل گئی آج کل ملک یوسف سوشل میڈیا پر اس کا ذمہ دار سابق وزیر اعظم چوہدری مجید اور چوہدری یاسین کو ٹھیرارہے ہیں شائد وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس بار جہاں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس اور پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری الیاس کو بھی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے سوشل میڈیا پر ان کی تقریر سن کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک یوسف ابھی تک مچیور سیاست دان نہیں بن پائے کیونکہ ان کی اس تقریر سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انھوں نے جن بھی جماعتوں کے ساتھ وابستگی رکھی ہے وہ صرف انتخاب جیتنے کے لیے تھی آج مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے ساتھ جس طرح کی دھاندلی ہوئی تھی اسی طرح ان کے ساتھ بھی ہوئی ہے شائد وہ بھول رہے ہیں کہ اب وہ کس پلیٹ فارم پہ کھٹے ہیں ان کے الفاظ ان کے گلے کا پھندہ بھی بن سکتا ہے اور 30تاریخ کے بعد وہ بھی دھرنا دیں گئے اور اس دھرنے کے بعد عوام باقی سب دھرنے بھول جائیں گئے ملک یوسف کی تقریر سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ نظریاتی سیاست دان نہیں ہیں انھیں چائیے کہ نظریات کی بنیاد پر سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ رہیں اور سیاست کرنے کے لیے سیاست دان بن کر ابھریں و ہ بھی سیاست میں کئی نشیب وفراز دیکھ چکے ہیں اور ماضی کی سیاسی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اپنی راہ کا تعین کریں ملک یوسف صاحب سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے اس کے لیے تعمل مزاجی اور شطرنج کا کھلاڑی ہونا ضروری ہے ملک یوسف کی خوش قسمتی ہے کہ جس جماعت کے ساتھ وہ وابستہ ہیں وہ جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے وہ اگر چائیں تو ایم ایل اے بنے بغیر عوام کی خدمت کر کے ان کے دلوں کے اندر گھر کرسکتے ہیں عوامی طاقت کے آگے دنیا کی کوئی دھاندلی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔آزادکشمیر کے اندر پہلی بارمسلم لیگ ن کی حکومت سے امید کی کرن نظر آرہی ہیکہ شائد تعمیروترقی کا سلسلہ شروع ہو سکے ۔دنیا بھرکے ممالک سب سے زیادہ صحت وتعلیم پر توجہ دیتے ہیں ،لیکن آزاد کشمیر جہاں کی عوام دونوں سے محروم ہے۔بدقسمتی سے ہمارے رہنماوں کو اقتدار کشی سے فرصت نہیں مل رہی،تمام بجٹ سیاسیے رشوت کے طور پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اربوں روپے پھپھوں جی کی نظر ہوجاتے ہیں صورت حال یہ ہے کہ ہسپتالوں کی عمارتیں تو ہیں لیکن مشینری نہیں ،جہاں مشینری ہے تو ادویات اور ڈاکٹرز نہیں۔اگر خوش قسمتی سے کسی ہسپتال میں ڈاکٹرمل بھی جائے تو وہ مریض کو اپنے پرئیوئٹ کلینک میں ریفر کر دیتا ہے ،ڈاکٹر ہسپتالوں کو بکنگ آفس کے طورپر استمال کررہے ہیں۔ سر کاری عمارتیں سرائے گاہ بن کر رہ گئیں ہیں ڈاکٹرز سرکاری تنخواہ کے ساتھ اپنے پرئیویٹ ہسپتالوں میں کروڑو روپے کمارہے ہیں،کروڑو روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی عمارتیں اُونچی دوکان پھیکا پکوان کی عملی شکل بن گئی ہیں ہسپتالوں میں دو روپے کی سرنج تک میسر نہیں۔این جی اوز ایمبولینس کے نام پر ٹرنسپورٹینگ کاکاروبار کر رہیں ہیں اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔بیرون ممالک سے عوامی فلاعی کامو ں کے لیے اوراین جی اوزکے نام پر کروڑو روپے چندہ لے کر ذاتی کاروبار کر رہے ہیں،غریب عوام غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہیں۔ایسی این جی اوز کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ریاست میں تعلیمی صورت روزبروز بدتر ہوتی جارہی ہے۔سیاسی برتیوں نے سکولوں کو تباہ کر کے رکھ دیاہے۔جس کے باعث عوام کا سرکاری سکولوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کے وارے نیارے ہیں ۔آج پرئیویٹ سکول کی شکل میں ایک اچھا کاروبار متعارف ہوچکا ہے۔ وہ من مانی فیس لے کر عوامی جزبات سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے فرضی اکونٹ کے سامنے ٹیکس ڈیپارٹمینٹ بھی بے بس ہو چکا ہے۔سڑکوں کا حال دیکھو تو آثار قدمہ کا نقشہ معلوم ہوتا ہے ۔بھمبر سے نیلم تک موٹروے کے دعوے دار ں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور عوام نے تھماتو دی ہے دیکھنا یہ کہ وہ کیا کرتے ہیں ہمارے ذہنوں میں صرف ایک ہی سوچ ابھرتی ہے آخر ہماری منزل کیا ہے۔وہ انقلاب کب آئے گا، جس کے خواب ہماری آنکھیں سجاے بیٹھی ہیں۔کشمیرمیں کب کوئی لیڈر پیدا ہو گا جو ان غریب کشمیریوں کو ان ناسوروں سے نجات دلواے گا۔ کاش کوئی جموں و کشمیر میں بھی ایسا لیڈر پیدا ہو جو مفادتی سیاست کے بجائے ریاست کے مفاد کو ترجع دے جو گڑھی خدا بخش اور رائیونڈکو قبلہ سمجنھے والوں سے نجات دلوائے ۔لیکن کشمیری عوام کو یہ جان لینا چاہیے ،کہ باشعور قوم ہی ترقی کی منزل حاصل کرتیں ہیں۔مردا قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ہمیں اپنے حق کی آواز بلند کرناہو گی۔اپنے حق پر ڈاکہ مارنے والوں کا احتساب کرنا ہو گا۔ضرورت ہے ہمارئے اندر شعور کی ان چوروں کو پکڑنے کی۔ روبن ہودڈ کے انتظار کے بجائے خود آج کے روبن ہوڈ بنیں اور معاشرے کے ناسوروں کو بے نقاب کر کے قلع قمعہ کریں۔ووٹ کا سہی استعمال کر کے برادری ازم کو بھول کر کرپٹ سیاست دانوں سے نجات حاصل کریں۔اپنی نئی نسل کو صاف ستھرا معاشرہ وراثت میں دیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog