سی پیک کے خلاف سازش

Published on August 10, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 648)      No Comments

logo final
تحریر۔۔۔ شفقت اللہ
شیطان کی آخری سانس تک ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو نیک معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر انہیں نقصان پہنچائے اور اکثرو بیشتر یہ نہایت خطر ناک شکل میں سامنے آتا ہے ۔دنیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو شیطان صفت اور اپنی جھوٹی شان و شوکت کو فرعون کے جیسے تا حیات قائم رکھنا چاہتے ہیں ان کا مشن ہے کہ وہ سپر پاور بنے رہیں لیکن قانون قدرت کو کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے اور قانون قدرت یہی ہے کہ ہر عروج کی انتہا زوال ہے ۔انسان ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچتا ہے جب تکبر اور انسانیت کے درمیان صرف ایک رائی کے برابر فاصلہ رہ جاتا جو تکبر سے بچ جاتا ہے اسکی ترقی لافانی رہتی ہے اور جو غرور میں آگیا زوال اسکا مقدر بن جاتا ہے ۔گزشتہ تین سال سے ملک بھر میں باقاعدہ طور پر دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے آپریشن جاری ہے جس میں وقفے وقفے سے کئی بار تبدیلی کی گئی اور وزیرستان کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو پکڑنے کیلئے اندرون ملک بھی آپریشن شروع کئے گئے جس میں پاک فوج ،حساس اداروں اور محکمہ پولیس کا بھی اہم کردار شامل ہے ۔اندرون ملک ہونے والے آپریشن کا نام نیشنل ایکشن پلان رکھا گیا یہ پلان تب متعارف کروایا گیا جب پشاور میں دن دیہاڑے خوارج نے آرمی سکول پر حملہ کیا اور کئی معصوم بچوں کو شہید کر دیا پلان کے تحت کافی سہولت کار اور دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث عناصر گرفت میں آئے اور کئی روپوش ہو گئے اسی طرح حال ہی میں کوئٹہ کے سول ہسپتال پر دن دیہاڑے دھماکہ کیا گیا جس میں 70 سے زائد افراد شہید ہوئے شہید ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد وکلاء کی تھی یہاں دو کڑیاں ملتی ہیں ایک تو یہ کہ اسی دن صبح بلوچستان بار کے صدر بلال کاسی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شدید زخمی حالت میں سول ہسپتال پہنچے عین اسی وقت جب صحافتی نمائندے اور وکلاء کی بڑی تعداد ان کیلئے سول ہسپتال جمع تھی تو ہسپتال کی ایمرجنسی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس میں صحافی ،ڈاکٹر اور وکلاء کی بڑی تعداد شہید ہوئی جنکے لئے دنیا بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ واقعی ایک دہشتگردانہ کاروائی تھی یا بلوچستان بار کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ تھی؟لیکن اب واضع ہورہا ہے کہ پہلے مساجد کو نشانہ بنانا پھر سکولوں کو اور اب وکلاء اور صحافی نشانے پر ہیں ۔ اس دل سوز واقع کے بعد تمام سرکاری مشینری حرکت میں آئی اور تمام سیاسی لیڈروں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع مل گیا مذمتی بیانات سامنے آنے لگے زخمیوں کیلئے اچھے علاج فراہم کرنے کی باتیں کی گئیں وغیرہ وغیرہ لیکن اسی دورانیہ میں جنرل صاحب کی آمد ہوئی اور عملی طور پر کام کر دکھایا۔مریضوں کی تیمار داری کے بعد انہوں نے فوراََ کورکمانڈر اور دیگر عہدیداران کی میٹنگ بلائی اور اس میں کومبنگ آپریشن کا آرڈر جاری کرتے ہوئے یہ حکم صادر فرمایا کہ ان دہشتگردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے کیلئے ملک کے جس کونے میں جانا پڑے جائیں ۔دراصل کومبنگ آپریشن کامطلب بھی یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی ایسی کاروائی جو لا محدود ہوتی ہے اور وہ جہاں چاہیں وہاں کاروائی کرنے کے بلا امتیاز اہل ہوتے ہیں ۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا باقی تمام صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی اس آپریشن کی اجازت ہو گی؟کیونکہ بار بار سیاسی نمائندگان اور پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندے پنجاب میں بھی آپریشن کی بات کرتے اور سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔اسکے بعد پچھلے کافی عرصے سے پنجاب بھر میں بچوں کے اغواء کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا یہ کیسے عناصر ہیں جو پکڑ میں نہیں آنے پا رہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ پنجاب میں آپریشن کرنے میں کیا دقت ہے ؟دوسری جانب پہلے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘سندھ اور بلوچستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں ،سہولت کاروں اور دہشتگردوں کی مالی امداد اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے میں ملوث پائی گئی ہے اور ان کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے باوجود ابھی بھی ان کے سہولت کار موجود ہیں ۔لیکن داعش کے خراسانی گروپ کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے پر تشویش یہ ہے کہ اب امریکہ اور دوسرے اسلام مخالف طاقتوں کو موقع مل گیا ہے اور وہ کہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں داعش موجود ہے جو کہ غلط ہے !پاکستان میں داعش کی کوئی موجودگی نہیں ہے کیونکہ پچھلے کافی عرصے سے پاکستان جو دہشتگردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اس میں جتنی کامیابیاں ملی ہیں اس کو مدنظر رکھا جائے تو داعش کیا کسی بھی دہشتگرد تنظیم کا پاکستان میں داخل ہونا نا ممکن ہے اس طرح ہم یو ں کہ سکتے ہیں کہ یہ حملہ بھی سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے کی ایک کڑی ہے ۔کیونکہ کہ پاکستان میں شعبہ صحافت اور وکلاء برادری کو مکمل آزادی اور پورا پورا حق حاصل ہے اور دشمن کی نظریں پاکستان کے خانگی حالات کو خراب رکھنے پر ٹکی ہوئیں ہیں جس کیلئے وہ جی توڑ محنت کر رہا ہے ۔کیا یہ عالمی قوتوں کی حق سچ کی شان و شوکت ہے؟کہاں گئے انسانیت کے دعویدار جو جانوروں کی دیکھ بھال میں بھی ہم سے آگے لیکن افسوس انسانیت جیسا کوئی مادہ ان میں پایا ہی نہیں جاتا ؟دشمن یہ نہ بھولے کہ غرور و تکبر اور دوسروں کو نیچ سمجھنے سے خود بڑا ہونا خود ساختہ ہے اور یہ شان و شوکت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی زوال اب انکا مقدر بن چکا ہے ۔منافقت سے بھرے اس دور میں کون دوست ہے اور کون دشمن پہچان مشکل ہو گئی ہے ۔صورتحال گھمبیر ضرور ہے لیکن دنیا میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ان حملوں سے یوں لگتا ہے کہ اب دہشتگردی اور دہشتگردوں کا وجود پاکستان کی سر زمین سے ختم ہونے والا ہے اور مرغ بسمل کی طرح اب تڑپ کر آخری جھٹکے مار رہاہے لیکن وہ دن دور نہیں جب ملک پاکستان میں بھی امن و استحکام ہو جائیگا ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题