صدمہ

Published on October 13, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 528)      No Comments

shahid shakil
تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
زندگی ایک سفر ہے جس میں لوگ ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں زندگی کے اس سفر میں انسان کو جتنی خوشی کسی کے ملنے سے ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ غم،دکھ ،افسوس اور صدمہ بچھڑ جانے پر ہوتا ہے کیونکہ خوشی تو انسان برداشت کر لیتا ہے لیکن صدمے سے دوچار ہو کر اکثر اوقات انسان شدید بیمار ہونے کے علاوہ موت کا شکار بھی ہوجاتا ہے صدمہ انسان کیلئے آدھی موت سے کم نہیں ہوتا اسکے باوجود دنیا بھر میں ایسے بھی انسان ہیں جو سب کچھ برداشت کرتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو بظاہر زندہ ہیں لیکن اندر ہی اندر غم اور صدمے سے گھل کر کھوکھلے ہوجاتے ہیں،کچھ لوگوں کا کہنا ہے وہ صدمے کے باوجود زندہ ہیں اور روزمرہ زندگی میں اپنے حالات سے جنگ کرتے ہوئے بس موت کا نتظار کر رہے ہیں ایسے لوگ ایک ٹراما سے بیدار ہوئے ہیں ٹراما کیا ہے؟محقیقین اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ ایسے لوگ زندگی کو حقیقت سمجھتے ہیں یا محض ایک افسانہ سمجھ کر گزار رہے ہیں۔وہ روک اینڈ رول بینڈ کا میوزیشن تھا اور اپنے بینڈ کے ساتھ ریاست ہائے امریکا کے سفر پر رہتا کئی بار اس نے خوشیاں منائیں الکوحل اور ڈرگس لیں کیونکہ وہ اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن تھا ایک ایکسیڈنٹ میں بمشکل اسکی جان بچی لیکن حادثے میں اپنی ٹانگیں گنوا بیٹھا اور ہمیشہ کیلئے معذور و مفلوج ہو گیا۔اپنے معالج کے سامنے وہیل چئیر پر بیٹھا اپنی یاداشت کو مجتمع کرتے ہوئے کہتا ہے حادثہ ہوا میں بچ گیا میرے لئے اچھی بات ہے مجھے ٹانگیں گنوانیں کا اتنا زیادہ افسوس نہیں کیونکہ میری زندگی کا یہ آخری سٹیشن نہیں ہے بلکہ ایک اہم موڑ ہے مجھے دھچکا لگا ہے اب میں سوچتا ہوں کہ اپنی زندگی پر ناز کروں یا کوسوں ،لیکن میں زندہ بچ جانے پر خوش ہوں وہیل چئیر پر بیٹھا ہوں اور مرا نہیں مجھے افسوس اس وقت ہوا تھا اور شدید صدمے سے دوچار ہوا جب یہ سنا کہ میں معذور ہو گیا ہوں لیکن میں ہارنے والوں میں نہیں میں ٹانگوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں کیونکہ دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی جی رہے ہیں جن کے ہاتھ پاؤں نہیں کیا وہ لوگ مر گئے ہیں۔معالج نے اخباری نمائندے کو بتایا کہ اس جوان کی ہمت کی داد دینی ہو گی کیونکہ اس نے میوزک بینڈ میں شمولیت کے بعد کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی معذوری کے بعد اس نے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کی اور ایک ایجنسی کی بنیاد رکھی جس میں وہ معذور افراد کی تعمیر نو اور دیگر روزمرہ معاملات پر روشنی ڈالنے کے بعد انہیں مفید مشورے دیا کرتا کہ یہ سچ ہے زندگی ایک سفر ہے اور موت اس کا آخری سٹیشن لیکن انسان کو کسی بھی حالت میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے سٹرگل کرنی چاہئے ۔اچھے کاموں کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کسی برے کام سے چار انسانوں کا بھلا ہو جائے برا نہیں ہوتا لیکن عام طور پر برا ہی سمجھا جاتا ہے امریکی سنگر رچرڈ الکوحل اور ڈرگس استعمال کرتا تھا حادثے کا شکار ہوا اور اس حادثے نے ہی اسے اچھے کاموں کی طرف راغب کیا تعجب کی بات اس لئے نہیں کیونکہ صدمے سے دوچار اور وہیل چئیر پر تمام زندگی بسر والے نے کئی انسانوں کو نئی زندگی دی وہ کئی برس صدمے سے دوچار انسانوں پر ریسرچ کرتا رہا اور اسکی محنت رائگاں نہیں گئی کیونکہ اسکی تحقیق اور فیصلہ درست تھا کہ ایسے انسانوں کی امداد کی جائے اور وہ کامیاب ہوا۔نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر لارنس کالہون اور انکا اسسٹنٹ کئی برسوں سے تحقیق کر رہے تھے کہ آخر صدمہ ایک انسان کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے مثلاً جنگوں میں مرنے کے بعد انکے پیاروں پر کیا بیتتی ہے یا ایکسیڈنٹ میں معذور افراد کے ورثاء کیا محسوس کرتے ہیں،ریسرچ
میں کئی افراد سے پوچھا گیا آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو ان کے جوابات کو بیان کرنا بہت مشکل ہے اور ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں پروفیسر صدمے کو ایک نام دینا چاہتے تھے جو انہیں تفصیلاً گفتگو اور طویل تحقیق کے بات دریافت ہوا ۔پی ٹی جی۔پوسٹ ٹراؤمیٹک گروتھ جسے عام زبان میں گہرے صدمے سے دوچار کہا جا سکتا ہے دیا گیا۔پروفیسر لارنس کا کہنا ہے انسان جب تکلیف اور صدمے میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ قطعی نارمل حالت میں نہیں ہوتا اس بارے میں کئی افراد کی مختلف رائے ہیں کہ کئی افراد صدمے پر قابو پا لیتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بحرانوں پر قابو پانے کیلئے کئی بار انسان کو لچک اختیار کرنی پڑتی ہے تاکہ مزید ذہنی خلفشار سے بچ سکیں جبکہ کئی افراد صدمہ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے نقطہ نظر سے زندگی کا مقصد ہی تبدیل کر دیتے ہیں اور اندر ہی اندر گھل کر موت کے کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں۔زیورچ یونیورسٹی کے پروفیسر آندریاض میرکر جو نفسیاتی بیماریوں کے ماہر ہیں کا کہنا ہے صدمے سے دوچار افراد یعنی پی ٹی جی کے مریض یقینی طور پر بہتر محسوس نہیں کرتے کیونکہ انکی زندگی صدمے سے شدید متاثر ہوتی ہے اور خوشی کو بھی مصائب سمجھتے ہیں ایسے لوگ پر اعتماد زندگی بسر نہیں کر سکتے دوستی کرنے یا تعلقات رکھنے اور بنانے سے گریز کرتے اور اپنی قسمت سے جنگ کرتے ہیں ، مثلاً اگر کسی بچے کے ساتھ ریپ کیا گیا ہو تو کیا وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے کبھی نہیں وہ بچہ تمام عمر صدمے میں مبتلا رہتا اور زیادتی بھول نہیں سکتا یا اگر کسی انسان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سارا زہر جسم میں پھیل جائے گا ایسی صورت میں کیا انسان نارمل رہ سکتا ہے سو فیصد وہ پی ٹی جی کا شکار ہو گا۔کئی واقعات ، گفتگو،اور ریسرچ کے بعد دنیا بھر کے ماہرین کا کہنا ہے صدمے سے دوچار انسان کو مزید تکلیف سے بچانے کیلئے ہمیشہ سہارے کی اشد ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ مختلف اوقات میں اسکا ذہن بٹائے ،مطالعے میں بتایا گیا کہ کئی انسان جلد پی ٹی جی سے چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں اور کئی روگ لگا کر سوگ مناتے رہتے ہیں ایسے افراد کو ہر قسم کی انٹرٹینمنٹ مثلاً سپورٹس، ہنسی مذاق،میوزک اور چہل قدمی میں مشغول رکھا جائے تاکہ وہ اپنا غم بھول سکیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes