شریف خاندان کے بیانات میں تضاد ہے ،نوازشریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتاسپریم کورٹ

Published on January 12, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 370)      No Comments

اسلام آباد (یواین پی ) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل (جمعہ ) تک ملتوی کر دی ۔ sup
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ۔ سپریم کورٹ کے سوالات کی بوچھاڑ میںدلائل دینے کے بعد کل مخدوم علی خان اپنے دلائل کا تسلسل دوبارہ جاری رکھیں گے۔
آج ساعت شروع ہوئی تو وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انکے موکل نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں ہے ۔ نوازشریف آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر ، شیئر ہولڈر یا بینیفشل نہیں جبکہ نوازشریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اورنہ ہے ۔
انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ درخواست گزاروں نے تقاریر میں تضاد کی بات کر کے نااہلی کی بات کی ہے۔”وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا اور الزام میں کہا گیا کہ بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی ۔ موقف اختیار کیا گیا کہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں ۔ ”حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے“ ۔ وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نعیم بخاری نے عدالت میں تسلیم کیا کہ حسین نواز کاٹیکس نمبر موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر رکن پارلیمنٹ رہنے کے اہل نہیں رہے ۔”پٹیشن میں نواز شریف پر جھوٹ بولنے کا الزام ہی عائد نہیں کیا گیا “۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ پٹیشن میں کہا گیا کہ نوازشریف نے الزامات کی درست وضاحت نہیں کی مگر نوازشریف نے تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے بیرون ملک سٹیل مل لگائی ۔ وزیراعظم نے خطاب میں بچوں سے متعلق کاروبار شروع کرنے کا نہیں کہا ۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کیلئے استعمال کیا ۔دبئی کی فیکٹری کا معاہدہ عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی درخواست اور دلائل میں تضاد ہے۔
پی ٹی آئی نے تسلیم کیا کہ دبئی مل 9ملین ڈالر میں فروخت ہوئی اور الزام لگایا گیا کہ فیکٹری خسارے میں فروخت ہوئی۔نوازشریف دبئی فیکٹری کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ ہمارے سامنے نواز شریف کے ڈائریکٹر ہونے کی کوئی دستاویز نہیں۔” کیسے مان لیں نواز شریف دبئی مل کے ڈائریکٹر نہیں تھے“۔جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ دستاویز دینا اور الزام ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے 2قسم کی منی ٹریل ہے ،بتایا جائے پیسہ دبئی سے جدہ اور پھر لند ن کیسے گیا ؟کیا پیسہ دبئی سے لند اور پھر قطر گیا ۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟ تو وزیر اعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ دبئی مل ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے ، عدالت کمیشن بنائے جو دبئی جا کر جائزہ لے جس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجا زالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے خوددبئی فیکٹری کا اعتراف کیا ، وزیر اعظم نے کہا تما م ریکارڈ موجود ہے ، اعترا ف کے بعد بار ثبوت آپ پر ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ دبئی فیکٹری قرضہ لیکر بنائی گئی ۔ عدالت نے کہا کہ آپ کی دستاویز ات سے کچھ بھی واضح نہیں ہوتا۔ ریکارڈ کے مطابق دبئی ملز کے 25فیصد شیئر ز طارق شفیع کے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ منی ٹریل آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا،”عدالت کو مطمئن کریں“۔مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62کے تحت نااہلی پر عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔قطر میں سرمایہ کاری نہ ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ 7ملین ڈالر پر ویلتھ ٹیکس نہ دینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے ۔وزیر اعظم نوازشریف کا لند ن جائیداد سے کوئی تعلق نہیں ۔ نوازشریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی کی تقریر پر نااہلی مانگی گئی ہے ۔ درخواست گزار کے مطابق نوازشریف آرٹیکل 62کے تحت نااہل ہوگئے جبکہ درخواست گزار نے تو تحائف کے معاملے پر بھی نااہلی مانگی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ بتائیں لندن جائیدادیں وزیراعظم کے بچوں کی ہیں یا کسی اور کی ؟جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہیں ۔ ” نوازشریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا“۔ آپ کو عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے دبئی فیکٹری کیلئے رقم دبئی سے کیے گئی ۔وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے اپنی پیدائش سے بھی پہلے اپنے خاندانی کاروبار کا احاطہ کیا اور خاندانی کاروبار کے سربراہ میاں شریف تھے۔ وزیرا عظم پر لگائے الزامات کی پٹیشن میں بے تحاشہ تضادات ہیں تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ پٹیشن میں تضادات پر درخواست گزار کو نااہل کرنے کی استدعا نہیں کریں گے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر پہلی تقریر میں کوئی بات رہ گئی تو ہو سکتا ہے دوسری تقریر میں کور کی گئی ہو ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر پہلے سے تحریر شدہ تھی انہوں نے فی البدیع نہیں کی ۔ کیا یہ محض معصومانہ خطا تھی یا جان بوجھ کر چھپایا گیا ؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دبئی فیکٹری کے قیام اور فروخت پر دونوں فریقین متفق ہیں ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ گلف سٹیل مل ہونے یا نہ ہونے پر وقت ضائع نہ کریں ۔ ساری دنیا گلگ سٹیل مل کے ہونے کو تسلیم کرتی ہے تو ہم کیسے اس کو تسلیم نہ کریں۔ کل آپ دبئی کے لیے بھی کہیں گے کہ ہے یا نہیں ۔ ان باتوں پر وقت ضائع نہ کریں اور کیس پر فوکس کریں جس کے بعد مخدوم علی خان نے کہا کہ دبئی فیکٹری کی فروخت سے 9ملین ڈالر ملنے کا کہا گیا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ رقم کس کو ملی ۔زبانی دلیل کیسے مان لیں کہ فیکٹری قائم ہوئی ؟
جسٹس گلزا ر احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کی ساری کہانی بی سی سی آئی بینک کے قرض سے شروع ہوتی ہے ۔ فیکٹری سے ہونے والی آمدن کا کوئی ذکر نہیں تو وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صرف زبانی دلیل ہیں جو دے رہا ہوں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سلمان بٹ نے عدالت میں کہا تھا کہ وزیراعظم کی تقریر سیاسی تھی ۔آپ سے سوالات پوچھنے کا مقصد کیس کو سمجھنا ہے ۔ وکیل نے جواب دیا کہ وزیرا عظم کے بیان میں کوئی غلطی نہیں تھی ۔”وزیرا عظم کی اسمبلی میں کی گئی تقریر عدالتی بیان نہیں تھا “۔ جسٹس عظمت سعید شیخ بولے” کیس یہ ہے کہ نوازشریف نے تقریر میں غلط بیانی کی “۔اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے ۔” آدھے سچ کو سچ مانیں یا جھوٹ “؟تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم تقریر سے پہلے کمیشن کی تشکیل کا کہہ چکے تھے ۔ وزیر اعظم نے مشاورت کے بعد تقریر کی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر عدالت اسمبلی میں کئی گئی تقریر کا جائزہ لیتی ہے تو آرٹیکل 66اڑے آئے گا ؟جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میاں شریف کی وفات کے بعد ہدایت کے مطابق حسین نواز کو کاروبار منتقل ہوا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ نوازشریف کا بزنس اور رقم سے کوئی تعلق نہیں ؟اگر تعلق نہیں تو پھر لندن فلیٹس کی منی ٹریل کیسے دی ؟ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تقریر میں اگر معصومانہ خطا ہے تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جان بوجھ کر کی جانے والی خطا کے سنگین نتائج ہونگے۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ بولے کہ قطری خط لند فلیٹس کو لنک کرتا ہے نوازشریف نے تقریر میں کچھ نہیں کہا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ صادق اور امین ہونے کا ٹیسٹ ہمارے پارلیمنٹیرین پر نافذ ہو گا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اسی وجہ سے ہم بہت زیادہ اختیا ط کر رہے ہیں ۔ معاملے کی حساسیت کا علم ہے ، ہمارے فیصلے نے نظیر بننا ہے۔مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ وزیرا عظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے۔وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا ۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں کسی مخصوص سوال کا جواب نہیں دے رہے تھے۔اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے کیلئے کتنا وقت درکار ہے تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ چند روز میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا جس پر عدالت نے کاہ کہ جتنا وقت درکار ہو ہم سنیں گے ۔
وزیرا عظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت چاہے تو جمعہ کے دن سماعت نہ رکھے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جمعہ کو بھی سماعت کریں گے ۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا نوازشریف اپنے خاندانی کاروبار کا حصہ ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ نوازشرفی مقدمے میں زیر بحث کسی کاروبار یا جائیداد سے منسلک نہیں ۔وزیراعظم کا جدہ اور دبئی میں سٹیل مل کے قیام سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔ لاتعلقی کی بات وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں ۔ انجانے میں کچھ رہ جانے اور چھپانے میں فرق ہوتا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ تحریری بات میں کوتاہی کا مطلب کیا جا سکتا ہے کہ چھپایا گیا ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیر اعظم نے تو کہا تھا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر عمومی تھی ۔ دوسری تقریر میں وزیر اعظم نے بعض تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے جس ریکارڈ کی بات کی وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ رکارڈ کا جائزہ لیے بغیر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ ہمارے سامنے دو موقف آئے ہیں ایک سچ ہو گا دوسرا جھوٹ ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیرا عظم نے خود کہا تھا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہئیے۔ ”وزیر اعظم نے کہا تھا میری زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے“۔ اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت دوسروں کے بیانات پر وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی ۔ درخواست گزار نے میرے موکل کے بارے میں جیمز ہیکر کی کتاب کا ذکر کیا ۔جیمز بیکر نے پاکستان آرمی کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا ہے ۔ کیا آرمی کے خلاف ہم یہ باتیں درست سمجھ کر مان سکتے ہیں ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ایک نامعلوم ڈیڈ باڈی آتی ہے ، عدالت واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر رائے بناتی ہے ۔ حالانکہ ثبوت دونوں فریقین کے پاس نہیں ہوتے ۔ ہمارے پاس کئی فوجداری مقدمات آتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیاوزیر اعظم نے سچ بولا یا ان کے بیٹے حسین نواز نے سچ بولا ۔ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہو گا ۔
مخدوم علی خان نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں سچ بول رہے ہوں ۔ میرا مقدمہ ہے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا ۔ جھوٹ کا الزام مجھ پر درخواست گزار لگا رہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کے بیانات میں تضاد ہے۔ہم سچ کا پتہ چلا رہے ہیں اور سچ بیانات سے نہیں دستاویزات سے سامنے آئے گا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بعض مقدمات میںحالات و واقعات سے سچائی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو وزیر اعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ عوام کے منتخب نمائندے کو نااہل قرار دینا معمولی بات نہیں ، شک کا فائدہ ہمیشہ منتخب نمائندے کو ہوتا ہے۔ نااہلی سے متعلق قوانین بھی موجود ہیں اور عدالتی فیصلے بھی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سچ کو ثابت کرنے کیلئے ریکارڈ سے ثابت کریں کہ کس نے سچ بولا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا اب تک پیش کیے گئے دستاویزات شواہد ہیں ؟ کیا قانونی شہادت کو نظر انداز کردیں ؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے تمام سوالات کے جواب دونگا ۔ الزامات ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے ۔ قانون کے مطابق بار ثبوت درخواست گزار وں پر ہے۔قانون شہادت کے تحت شواہد نہ ہوں تو کیس بن ہی نہیں سکتا۔ نوازشریف نے کہیں بھی جھوٹ نہیں بولا ۔ وزیرا عظم کو ہٹانے کیلئے ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد کا ہے اور دوسرا طریقہ ہے کہ بطور ایم این اے ثابت ہو جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں ۔

وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے آج دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل جمعہ تک ملتوی کر دی ۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog