ہم ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا،سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی

Published on January 26, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 349)      No Comments

PN

اسلام آباد (یواین پی ) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ عدالت کو پیش کر دیا ہے۔ مریم نواز نے انٹرویو میں الزامات کا جواب دیا ۔شادی شدہ خاتون والد کے زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی تاہم وزیر اعظم کو اپنے بچوں سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کرا دوں گا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2011ءکے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا زیر کفالت میں 2افراد کا ذکر ہونے کا مطلب کیا ہے، اگر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو اور بچے بڑے ہو چکے ہوں تو کیا صورتحال ہو گی؟ مشترکہ کاروبار میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصو ر ہوں گے؟ کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے جو پورے خاندان کو چلاتا ہے تو کیا ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں ؟ بالغ بچے اپنا کاروبار ہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں ۔کیا اپنے کاروبار کے باوجود بڑ ے سے خرچہ لینے والے بھی زیر کفالت تصور ہونگے ؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ا س کا مطلب ایک وہ خود اور دوسرا اس کی اہلیہ ہے ۔
بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد سے استفسار کیا کہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی ۔ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور انکے بچے زیر کفالت ہو جائیں گے َ؟ زیر کفالت کے معاملے کو انکم اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے ۔ہم ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا۔جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئیگی ۔غیر شادی شدہ بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی ، زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں ۔ زیر کفالت کی تعریف میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے تاہم زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے ۔
انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں ۔ مریم نواز کے انٹرویو کا متن تیار ہو کر آگیا ہے وہ جمع کرا رہاہوں ۔ شادی شدہ خاتون والد کے زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی ۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیر کفالت کی کیٹیگری ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹیگری 2015ءمیں شامل کی گئی تو بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں جس پر مریم نوا ز کے وکیل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے کوئی واضح تعریف نہیں کی جا سکتی کیونکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور انکے بچے زیر کفالت ہو جائیں گے ؟تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ جذباتی اور ثقافتی طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی ، ڈکشنری کے مطابق مکمل طور پر دوسرے پر انحصار کرنیوالا زیر کفالت ہوتا ہے ۔ شاہد حامد نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم کو اپنے بچوں سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کرا دوں گا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا ؟ تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ 2006ءمیں حسن نواز نے لندن میں بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدی اور دبئی بھجوائی س، دو سال بعد انہوں نے گاڑی مریم نوازشریف کو تحفے میں دے دی اور مریم نواز نے 37لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کر کے گاڑی حاصل کر لی اور 2011ءمیں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی اور پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2کروڑ 80لاکھ لگائی گئی تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں نئی گاڑی کی خریداری کیلئے پرانی گاڑی مجوزہ قیمت پر بیچ دی ؟ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ کیپٹن صفدر کی 1.858ملین روپے آمدن بطور رکن قومی اسمبلی حاصل ہوئی جبکہ 4.172ملین روپے میاں بیوی کی مجموعی آمدن تھی اور 3.85ملین روپے کے اخراجات ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ اضافی زرعی زمین خریدنے کے بعد آمدن میں اضافہ ہوا اور یہ اضافہ 21لاکھ سے 69لاکھ ہو گیا جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی زمین ہے جو والد کی طرف سے تحفے کی رقم سے خریدی گئی ۔ آپ نے جو بھی اثاثے ظاہر کیے وہ بطور تحفہ ملے ۔ وکیل نے جواب دیا کہ زرعی زمین سے حاصل آمدن مریم کی اپنی آمدن ہے۔اگر مریم صفدر انکم ٹیکس ریٹرن فائل کر رہی ہے تو زیر کفالت کا معاملہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے بتایا ہے مریم کے پاس تحفوں کے علاوہ بھی ذرائع آمدن ہیں تو شاہد حامد نے کہا کہ 2013ءمیں زرعی آمدن 69لاکھ روپے تھی ، مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ زیر کفالت کے معاملے کو انکم اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے ۔ہم ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا؟ شاہد حامد نے جواب دیا اگر والدین بچوں کو گفٹ دیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ بچے انکے زیر کفالت ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آپ کا کہنا ہے اگر تحفے کی رقم سے آمدن شروع ہو جائے تو پھر وہ زیر کفالت نہیں ۔وکیل نے جواب دیا کہ میری تین بیٹیاں ہیں جو مجھ سے تحائف بھی لیتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ زیر کفالت ہیٰں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تحائف کے تبادلے سے کوئی زیر کفالت نہیں ہوتا کیونکہ والد بھی تحائف لیتا رہا ۔شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار کی طرف سے دلائل کل دوں گا ، 7فروری کا منروا کا خط بھی جعلی دستاویز ہے ۔عوامی مفاد کے تحت دائر درخواستیں نیک نیتی پر مبنی ہونی چاہئیں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرا خیال ہے اس کیس میں سب وکلاءنے عدالت کی بہترین معاونت کی ۔سیاسی مخالفت جھگڑا یا جنگ نہیں ہوتی ، لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کیا سیاسی اختلاف ہو تو درخواست نہ سنیں ؟ درخواست گزار کی بدنیتی بتائیں ۔ آدھے گھنٹے بعد ٹی وی پر نظر آجائے گا مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہے؟

بینچ کے رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شاہد حامد کو مخاطب کر کے استفسار کیا کہ کیا مریم کیلئے نواز شریف نے زمین انہی تاریخوں میں خریدی جن میں حسین نے انہیں تحفاُُ رقم دی ؟ بظاہر لگتا ہے کہ حسین نے والد کو رقم تحفاُُ دی پھر والد نے زمین مریم کیلئے خریدی اور پھر بیٹی قانونی طور پر جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہے ۔وکیل نے جواب دیا اگر جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی ہے تو یہ کلریکل کوتاہی ہو سکتی ہے اور کلریکل کوتاہی کے کبھی بھی سنگین نتائج نہیں نکلتے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تاریخیں بہت اہم ہیں ۔ ہم نے رقم کی منتقلی ، تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سیل ڈیڈ پہلے سادہ پیپر پر تھی اور پھر بیان حلفی تیار کیا گیا ، آپ خود بتادیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائے ؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کچھ رقم بیرون ملک سے آئی اور والد اس رقم سے بیٹی کیلئے زمین خریدتا ہے پھر بیٹی یہ رقم باپ کو واپس کر دیتی ہے ، ”آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں “۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل ( جمعہ ) تک ملتوی کر دی۔ کل بھی مریم نواز کے وکیل اپنے دلائل دیں گے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog