نیب وزیر اعظم کیلئے انشورنس پالیسی تھی ،سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا : سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ملتوی

Published on February 22, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 300)      No Comments

اسلام آباد (یواین پی ) پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ سے کوئی بھی تعاون نہیں کر رہا اور نہ ہی سپریم کورٹ کو معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ فارن کرنسی اکاﺅنٹس پر قرض لیا گیا تھا ، اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کیلئے نیب انشورنس پالیسی تھی ۔کل چیئرمین نیب نے یہ کہا کہ میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو ”مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے“۔کوئی سٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں ۔ ”ہر وکیل بات کر کے کنفیوز کر دیتا ہے “۔عدالت کو بتایا گیا تھا کہ قطری کے پاس سرمایہ کاری کی گئی تھی اور قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکاﺅنٹ کا ذکر نہیں آیا ۔
انہوں نے اشتر اوصاف علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اور تمام وکلاءعدالت پر رحم کریں ۔آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں ، پارٹی نہ بنیں ۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار وزیر اعظم کیخلاف فوجداری مقدمہ کریںجس پر اٹارنی جنرل نے جوا ب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں ، پاناما کیس میں پارٹی نہیں ہوں ۔ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے کیونکہ حدیبیہ پیپر ملز اور پاناما کیس کی نوعیت میں فرق ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس کیس کے کیوں کترا رہے ہیں ؟ اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا ؟ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا ۔الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کر رہے ہیں ، الزامات سچ تھے تو دفنایا کیوں گیا ؟ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں ۔یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ان کا وزیر اعظم اہل ہے ہا نہیں ؟
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔حدیبیہ پیپرز کیس میں ریاست مدعی تھی ۔
اشتر اوصاف علی نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اپیل کا حق متعلقہ فریق کو ہوتا ہے ، غیر متعلقہ شخص کیسے اپیل کر سکتا ہے ۔ڈکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کیلئے کیا رہ جائے گا ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ متعدد مقدمات میں کہہ چکے ہیں دیگر ادارے کام نہ کررہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے یوسف رضا گیلانی کیس میں نہ صرف یہ کہا بلکہ گھر بھی بھیجا، اگرچہ اس کیس میں65ملین ڈالر ز واپس نہیں آئے لیکن وزیر اعظم گھر چلے گئے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog